کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 204
لَقَدْ رَأَىٰ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىٰ﴾ (النجم:۸ تا ۱۸)
’’آسمان کے اونچے کنارے میں پھر وہ اترا اور (پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے) پاس گیا۔ اتنا کہ دو کمان کا یا اس سے بھی کم (پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور جبریل علیہ السلام میں) فاصلہ رہ گیا۔ اپھر اس نے اللہ کے بندے (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو جو بتلانا تھا وہ بتلایا۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دیکھا تھا اس میں (اپنے) دل سے جھوٹ نہیں ملایا۔ کیا پیغمبر نے جو دیکھا تم اس بات میں اس سے جھگڑتے ہو؟ حالانکہ پیغمبر تو اس کو (جبرئیل علیہ السلام کو) ایک بار اوردیکھ چکا ہے سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔ اسی کے پاس بہشت ہے جو (نیک بندوں کا) ٹھکانہ ہے۔ جب اس سدرے پر کچھ چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا۔ پیغمبر کی نگاہ چوکی نہیں نہ حد سے بڑھی۔ بیشک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مالک کی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ ‘‘[1]
۳…نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے تیسرا معجزہ چاند کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجانے
[1] یعنی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک وحی پہنچا کر جبریل آسمان کی طرف چلے گئے۔ ترجمہ کے مطابق یہ تفسیر سعید بن السیب اور ابن جبیر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔ شاہ صاحب نے ’’فاستویٰ ‘‘ کا ترجمہ’’پس سید ھا بیٹھا ‘‘ کیا ہے اور فوائد میں لکھا ہے کہ یہ ابتدائے نبوت کا واقعہ ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اصلی شکل میں نظر آئے کہ آسمان ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ان کے وجود سے بھرا ہوا دکھائی دیا۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا گئے تو سورہ مدثر نال ہوئی(موضح القرآن) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ان کی اصل شکل میں دیکھا تھا۔ یعنی ایک مرتبہ ابتدائے نبوت میں جس کی طرف ان آیات میں اشارہ ہے اور دوسری مرتبہ معراج کے موقع پر جس کا ذکر آگے آیت ۱۳ سے شروع ہو رہا ہے۔ (ابن کثیر )
یعنی پھر نیچے زمین پر اترے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ہوئے۔
یہ معراج کا واقعہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو دوسری مرتبہ ان کی اصلی شکل میں دیکھا (ابن کثیر )
صحیح حدیث میں ہے کہ یہ درخت چھٹے یا ساتویں آسمان پر ہے اور اسے منتہیٰ اس لیے کہتے ہیں کہ اس پر تمام مخلوق کا علم ختم ہو جاتا ہے۔ (شوکانی)
مراد ہے اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کا نور یا فرشتوں کا ہجوم یا سنہری پروانے جیسا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم (ابن کثیر )
نشانیوں سے مراد وہ تمام نشانیاں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات کو دیکھیں ۔ جیسے جنت و دوزخ، سدرۃ المنتہیٰ اور حضرت جبریل علیہ السلام کی اصلی شکل وغیرہ۔ متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تصریح کی ہے کہ یہاں رؤیت سے مراد جبریل علیہ السلام کی روئیت ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار۔ چنانچہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ’’ تم سے جو شخص یہ کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے وہ جھوٹ کہتا ہے۔‘‘ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دل سے دیکھا تھا۔ کذاروی عن ابن عباس (ابن کثیر)