کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 201
قرآن کی نص موجود ہے۔ فرمایا: ﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾ (بنی اسرائیل:۱) ’’وہ اللہ کریم (ہر عیب اور نقص سے) پاک ہے جو اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو راتوں رات ادب والی مسجد (خانہ کعبہ) سے دور کی مسجد (بیت المقدس) میں لے گیا جس کے گرد ہم نے برکت کر رکھی ہے تاکہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھلائیں۔ بے شک وہی اللہ ہے جو (ہر بات کو اور ہر چیز کو) سنتا اور دیکھتا ہے۔ ‘‘[1]
[1] اسی ’’اسراء‘‘ کو معراج بھی کہا جاتا ہے مگر دراصل اسراء اور معراج میں دو سفر ہیں جو ایک ہی رات میں ہوئے۔ مکہ سے بیت المقدس تک سفر کا نام ’’اسرا‘‘ ہے جس کا تذکرہ یہاں فرمایا ہے۔ پھر بیت المقدس سے آسمانوں تک لے جانے کو معراج کہا جاتا ہے جس کی تفصیلات کتب حدیث اور سیر میں مذکور ہیں ۔ ’’مسجد حرام سے مراد مکہ یا پورا حرام ہے۔ کیونکہ جس رات معراج ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر میں سوئے ہوئے تھے۔ وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حطیم کعبہ میں لایا گیا اور پھر حطیم سے براق پر سوار ہو کر بیت المقدس پہنچے اور بیت المقدس سے بذریعہ معراج کے اوپر ساتوں آسمانوں سے گزر کر سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے۔ راستہ میں آسمانوں پر متعد دجلیل القدر انبیاء علیہا السلام سے ملاقاتیں ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت و دوزخ کا مشاہدہ بھی کیا۔ بالاخر سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچ کر اپنے رب سے ہم کلام بھی ہوئے اور یہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پنجگانہ نماز کا حکم ملا۔ پھر پلٹ کر بیت المقدس آئے جہاں آپ نے امام بن کر تمام انبیا علیہم السلام کے ساتھ نماز ادا کی۔ حافظ ابن کثیر نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ لیکن قاضی عیاض وغیرہ کا خیال ہے کہ انبیاء کی امامت آپ نے واپسی پر نہیں بلکہ معراج کو جاتے ہوئے کروائی ہے۔ بہر حال اس کے بعد مسجد حرام واپس تشریف لائے۔ سفر کا یہ واقعہ بہت سی احادیث سے ثابت ہوتا ہے اور تقریبا تیس صحابہ سے مروی ہے۔ گوبعض جزئیات میں اختلاف ہے۔ علماء سلف و خلف کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ واقعہ بیداری میں روح اور جسم سمیت پیش آیا۔ اور قرآن میں لفظ ’’عبدہ‘‘ سے بھی اسکی شہادت ملتی ہے۔ پھر اگر یہ خواب کا واقعہ ہوتا تو کفار قریش اس کی تکذیب نہ کرتے اور نہ قرآن ہی ’’سبحان الذی‘‘ کی تمہید کے ساتھ اے بیان کرتا۔ کیونکہ ان تمہیدی الفاظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اہم اور خرقِ عادت واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ’’وما جعلنا الرویا التی اریناک…‘‘ میں لفظ رویا سے استدلال کیا ہے کہ یہ خواب کا واقعہ ہے۔ مگر محققین علمائے لغت نے تصریح کی ہے کہ لفظ ’’رؤیا‘‘ بیداری میں مشاہدہ عینی پر بھی بولا جاتا ہے اور یہاں پر یہی معنی مراد ہیں ۔ کماصرح بہ ابن عباس رضی اللہ عنہما (بخاری) پس اس آیت سے ان کا یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔ تمام صحابہ روایتہ اس پر متفق ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج بحالت بیداری ہوئی اور جسم کے ساتھ ہوئی۔ اور یہی اہلِ حدیث کا متفقہ فیصلہ ہے۔ صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور معاویہ رضی اللہ عنہ سے یہ مروی ہے کہ معراج خواب میں ہوئی۔ مگر ایک تو یہ روایت سنداً منطقع ہے اور پھر ان کی اپنی رائے اور آیت کریمہ ’’وَمَاجَعَلْنَا الرُّوْیَا‘‘ سے استدلال ہے جو صحابہ کے متفقہ فیصلہ کے سامنے ناقابل التفات سمجھا گیا ہے۔ (از شوکانی ابن کثیر)اکثر روایات کے بیان کے مطابق یہ قصہ ہجرت سے ایک سال قبل کا ہے۔ ابنِ حزم نے اس پر اجماع نقل کیا اور ملا امین عمری نے اس کو قطعی قرار دیا ہے۔ بعض روایات میں تین سال قبل بھی مذکور ہے۔ صرف حضرت انس رضی اللہ عنہ سے شریک بن ابی نمرہ کی ایک روایت میں ہے کہ یہ واقعہ قبل از نبوت کا ہے۔ مگر شریک کی یہ روایت شاذ اور منکر سمجھی گئی ہے۔ حافظ عبدالحق بھی ’’الجمع بن الصحین‘‘ میں لکھتے ہیں : قد زاد فیہ زیادۃً مھجولۃً واتی بالفاظ غیر معروفۃ‘‘ اور پھر شریک علمائِ حدیث کے نزدیک ’’حافظ ‘‘ بھی نہیں ہے۔ بہر حال صحیح یہی ہے کہ ہجرت سے کچھ عرصہ قبل کا واقعہ ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اس وقت زندہ تھیں اور انہوں نے پنجگانہ نماز ادا کی ہے اور ان کی وفات ہجرت سے تین سال پیشتر ہوئی ہے۔ واللہ اعلم۔ (روح)