کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 20
((تَکُوْنُ النُّبُوَّۃُ فِیْکُمْ مَا شَائَ اللّٰہُ أَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا إِذَا شَائَ أَنْ یَرْفَعَھَا)) ’’تم لوگوں میں (میری دنیا میں موجودگی کے ساتھ) نبوّت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔پھر اللہ تعالیٰ (میری وفات کے ذریعے) اس کو اُٹھا لے گا جب چاہے گا کہ وہ اس کو اُٹھا لے۔ ((ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃٌ عَلَی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ، فَتَکُوْنُ مَا شَائَ اللّٰہُ أَنْ تَکُوْنَ ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا إِذَا شَائَ أَنْ یَرْفَعَھَا۔)) پھر خلافت اس نبوت (والے منہج و طریق) کے انداز پر ہو گی اور یہ اس وقت تک دنیا میں قائم رہے گی جب تک اللہ عزوجل چاہے کہ رہے … پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اس خلافت (والی حکومت و امارت) کو بھی اُٹھالے گا جب چاہے گا کہ وہ اس کو اُٹھا لے۔ ((ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا عَاضًّا فَیَکُوْنُ مَا شَائَ اللّٰہُ أَنْ یَّکُوْنَ ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا إِذَا شَائَ أَنْ یَرْفَعَھَا)) پھر ظالمانہ بادشاہت ہو گی اور یہ اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گاکہ رہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کو اُٹھا لے گا جب وہ چاہے گا کہ اس کو اُٹھا لے۔((ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا جَبْرِیَّۃً فَتَکُوْنُ مَا شَائَ اللّٰہُ أَنْ تَکُوْنَ ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا إِذَا شَائَ أَنْ یَّرْفَعَھَا۔)) پھر جبر و قہر والی بادشاہت ہو گی اور جب تک اللہ چاہے گا یہ بادشاہت رہے گی اور پھر اسے وہ اُٹھا لے گا جب چاہے گا۔ ((ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃٌ عَلَی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ ، ثُمَّ سَکَتَ)) [1] اس کے بعد پھر منہجِ نبوت پر خلافت قائم ہوگی۔اس کے بعدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی۔‘‘
مقصودِ سخن
تحریر مذکور بالا سے آپ نے اندازہ لگایا ہو گا:ہم نے کوئی ضعیف روایت اور بناوٹی کہانی بیان نہیں کی۔ جو کچھ بیان ہوا ہے پوری ذمہ داری سے قرآنی آیات اور
[1] مسند الاما م احمد: ۴؍۲۷۳، حدیث: ۱۸۴۰۶۔ قال الألبانی: واسنادہ حسنٌ فانظر الأحادیث الصحیحۃ ج۱ ، ص ۹ و تنقیح الرواۃ ج:۴ ، ص۵۱۔