کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 199
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کئی ایک کھلے معجزات اور ظاہر ہ و باہرہ نشانیوں کے ساتھ کئی بار فرمائی تھی ، بلکہ اللہ عزوجل کی مدد ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شامل حال رہتی تھی۔ ۱…ان ظاہرہ و باہرہ معجزات میں سے تا قیامت باقی رہنے والا سب سے بڑا معجزہ اللہ کی کتاب قرآن عظیم ہے کہ جس کے ذریعے اللہ رب العالمین نے دنیا کی تمام قوموں اور ملتوں میں سب سے زیادہ فصیح و بلیغ کلام کرنے والی قوم کہ جوسارے جہان کی سب قوموں اور ملتوں پر قادر کلامی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی… قوم عرب کو چیلنج کررکھا ہے۔ [1]
[1] کہ اگر تم سمجھتے ہو ؛ یہ قرآن محمد بن عبداللہ القرشی الہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے تیار کیا اور لکھوا دیا ہے تو پھر: ۱۔ ﴿قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًاo ﴾ (بنی اسرائیل:۸۸ )’’’’(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں سے) کہہ دیجیے! (ایک دو شخص تو قرآن کیا بنا سکتے ہیں ) اگر سارے آدمی اور جن مل کر یہ چاہیں کہ اس طرح کا قرآن (بنا) لائیں تو بھی اس طرح کا (بنا کر )نہ لا سکیں گے چاہے ایک دوسرے کی مدد بھی کریں ‘‘ یہ کفار کے اس دعویٰ کی تردید ہے کہ اگر چاہیں تو ہم بھی ایسا قرآن تصنیف کر کے پیش کر سکتے ہیں ۔ قرآن میں یہ تحدی سورہ بقرۃ:۲۳، یونس :۳۸،ہود :۱۳ ابور اور سورہ طور ۳۴، میں بھی مذکور ہے۔ یہاں سارے قرآن کے متعلق تحدی کی گئی ہے۔ سورہ ہود میں دس سورتوں اور بقرہ و یونس میں صرف ایک سورۃ اور طور میں تو سورۃ کے کچھ حصہ کے متعلق تحدی مذکور ہے (رازی) مگر قرآن کا یہ اعجاز ہے کہ نہ اس زمانے میں کفار مکہ اس کا جواب دے سکے اور نہ آئندہ قیامت تک اس کا جواب ممکن ہے۔ یہاں انسانوں کے ساتھ جنات کو بھی شامل کر دیا ہے اس لیے کہ کفار یہ اتہام لگاتے تھے کہ کوئی جنّی اس (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) پر القاء کر جاتا ہے اور پھر جنوں کو اپنے سے اعلیٰ اور عالم الغیب بھی سمجھتے تھے۔ اس سے مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم نے ہر طرح سے تحدی کی ہے اور یہ بھی کہ ہم نے دلائل توحید اور نفی شرک پر ہر نوع کے دلائل پیش کئے ہیں ، یا ہر معنی کو فصاحت و بلاغت کے ساتھ ایسے دلکش پیرا یہ میں بیان کیا ہے کہ وہ مثال کی طرح ذہن میں اترتے چلے جاتے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ جس حد تک بیان اور افہام کا تعلق ہے تو ہم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی (رازی) ۲۔ ﴿اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰیہُ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ مُفْتَرَیٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ oفَاِلَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَکُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اُنْزِلَ بِعِلْمِ اللّٰہِ وَ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ o﴾ (ہود:۱۳ تا ۱۴)’’بلکہ وہ کافر کہتے ہیں کہ اس نے (یعنی پیغمبر نے) قرآن کو جھوٹ موٹ گھڑ لیا ہے۔ تو کہہ دے اگر تم سچے ہو تو قرآن کی طرح دس بٹی ہوئی سورتیں بنا کر لے آؤ اور اللہ کے سوا اپنی مدد کے لیے جن جن کو بلا سکتے ہوں بلاؤ۔ پھر (اے مسلمانوں اور پیغمبر) اگر یہ کافر جو تم نے چاہا وہ نہ کرسکیں تو تم یقین کرلو کہ قرآن اللہ کا علم لے کر اترا ہے اور یہ (بھی سمجھ لو) کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے۔ تو کیا اب بھی تم مانتے ہو (یا نہیں ) ‘‘ ۳۔ ﴿وَ اِن کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّن مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا شُھَدَآئَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ o﴾(البقرۃ:۲۳)’ ’اور اگر تم کو شک ہے اس کلام میں جو ہم نے اتارا اپنے بندے پر (یعنی قرآن میں ) تو ایک ہی سورت اس کے جوڑ کی بنا لاؤ اور جو حمایتی تمہاے اللہ تعالیٰ کے سوا ہوں ان کو بھی بلا لو اور ان سے بھی (اس سورت کے بنانے میں ) مدد لو اگر تم سچے ہو۔‘‘ ۴۔ ﴿وَ مَا کَانَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ یُّفْتَرٰی مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلٰکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَتَفْصِیْلَ الْکِتٰبِ لَا رَیْبَ فِیْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَo اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰیہُ قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَo ﴾ (یونس :۳۷تا ۳۸) ’’اور یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اس کو اپنے دل سے بنالے (اس کی ایک سورت بھی کسی سے نہ بن کسی) بلکہ وہ اگلی کتابوں کو سچ بتاتا ہے اور (ان میں جو باتیں ہیں ) ان کو کھول کر بیان کرتا ہے۔ کوئی شبہ نہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے (اترا ہے) جو سارے جہانوں کا رب ہے۔ کیا یہ لوگ (قرآن کی نسبت) کہتے ہیں کہ اس کو پیغمبر نے بنا لیا ہے۔ (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ) کہہ دے (اچھا) اگر تم سچے ہو تو ایک سورت تو اس جیسی بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جن جن کو تم بلا سکو (اپنی مدد کے لیے) بلا لو۔ ‘‘