کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 197
الحدیث جماعۃ حَقہ والے سلفی لوگ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ :اللہ عزوجل کے بعد نبی مکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اطہر اور آپ کی سنت مطہرہ دنیا جہان کے تمام لوگوں حتی کہ اپنی جان سے بھی زیادہ اول و افضل اور زیادہ محبوب ہو جائے ، تب ایمان مکمل ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن کہہ رہا ہے : ’’(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) تیر ے پروردگارکی قسم! (اللہ تعالیٰ خود اپنی قسم کھا کر فرما رہے ہیں) وہ مومن نہ ہوں گے جب تک اپنے جھگڑوں کا فیصلہ تجھ سے نہ کرائیں۔ پھر تیرے فیصلے سے ان کے دلوں میں کچھ اداسی نہ ہو اور وہ (خوشی خوشی) مان کر منظور کر لیں۔ ‘‘[1] (النساء:۶۵ آیت پیچھے گزر چکی ہے۔)
[1] اس آیت سے معلوم ہوا کہ نبی مکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے خلاف دل میں ذرہ بھر بھی کجی اور ناپسندیدگی محسوس کی جائے تو یہ ایمان کے منافی ہے۔چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہشِ نفس میرے لائے ہوئے طریقہ کار کے تابع نہ ہو جائے۔ بعض نے کہا کہ یہ آیت پہلے قصہ کے ساتھ ہی متعلق ہے اور بعض نے لکھا ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور ایک انصاری کے درمیان شراج حرۃ‘‘ کے پانی کے بارے میں نزاع ہو گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے رعایت کی سفارش کی اور فرمایا: اپنے باغ کو پانی دے کر اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دو۔ اس پر انصاری نے کہا: ’’ یہ اس لیے کہ زبیر رضی اللہ عنہ تمہارے پھوپھی زاد بھائی ہیں ۔‘‘ مطلب یہ تھا کہ اس رشتے کی رعایت کی ہے۔ اس پر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف محسوس ہوئی اور فرمایا کہ زبیر رضی اللہ عنہ ! اپنے باغ کو اتنا پانی دو کہ یہ منڈیروں تک چڑھ آئے پھر اس کے لیے چھوڑ دو۔ اس پر انصاری اور زیادہ تلملایا اور یہ آیت نازل ہوئی(بخاری تفسیر و کتاب ، الشرب) معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فیصلہ تنقید سے بالا ہے اور ہر حاکمِ وقت کے فیصلہ سے بلند ہے اور یہ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ۔ ساداتنا انس بن مالک اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَالّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ: لاَ یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ))(صحیح البخاری ، کتاب الایمان، حدیث :۱۴،۱۵ ۔ صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، حدیث:۱۶۹)’’اس ذات اقدس (اللہ رب العالمین) کی قسم کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ؛ تم میں سے کوئی شخص تب تک ایمان والا نہیں ہو سکتا حتی کہ میں اُس کے نزدیک اس کے باپ (اور اس درجہ کے تمام عزیز و اقارب) اور اس کی اولاد (اور اس درجہ کے تمام اس کے رشتہ دار) اور دنیا جہان کے دیگر تمام لوگوں سے زیادہ پیارا ، پسندیدہ اور محبوب ہو جاؤں ۔ ‘‘ کتب احادیث میں اس موضوع پر بیسیوں احادیث مبارکہ موجودہیں اور بعض میں اس بات کی بھی صراحت ہے کہ: ’’اس کی اپنی جان سے زیادہ پیارا ہو جاؤں ۔ ‘‘