کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 196
بنایا۔[1] بالتحقیق اللہ ذوالجلال والاکرام نے اس رسالت کی تبلیغ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لغزشوں اور غلطیوں سے بالکل محفوظ اور بچا کر رکھا تھا اور آپ جو بھی گفتگو فرماتے وہ وحی ہوا کرتی تھی۔ جیسا کہ قرآن نے بیان کر دیا ہے:
’’قسم ہے تارے کی جب وہ نیچے کو چلے۔ تمہارا ساتھی (یعنی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) نہ تو بہکا ہے اور نہ بھٹکا ہے۔ اور نہ (اپنے دل کی) خواہش سے وہ (کوئی) بات کرتا ہے۔اس کی جو بات ہے وہ وحی ہے (جو اس پر) بھیجی جاتی ہے۔ ‘‘ (النجم:۱ تا۴۔ یہ آیات پیچھے گزر چکی ہیں۔)
کسی بندے کا ایمان تب تک صحیح نہیں ہو سکتا جب تک وہ نبی معظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت ور سالتِ کا ملہ ومکتملہ پر پورا پورا ایمان لاتے ہوئے اس عقیدۂ رسالت کی گواہی نہ دے۔ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری پوری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی وہ جہنم میں جائے گا۔ اور جیسا کہ اللہ عزوجل نے قرآن عظیم میں یہ بات فیصلہ کے طور پر بیان فرما دی ہے کہ جب تک کوئی بھی شخص نبی مکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زندگی کے تمام امور میں فیصلہ کرنے والا نہ مان لے تب تک وہ مومن نہیں ہو سکتا۔ اہل السنہ والجماعۃ اہل
[1] اور پھر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امانت حق کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے پوری زندگی مکمل جانفشانی سے کام لیتے ہوئے اس میں کوئی کمی کیے بغیر اللہ کے بندوں تک کما حقہ پہنچا دیا۔ جیسا کہ قرآن خود اس بات کی گواہی دے رہا ہے۔ فرمایا: ﴿وَمَا ھُوَ عَلَی الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ oوَمَا ھُوَبِقَوْلِ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍoفَاَیْنَ تَذْھَبُوْنَoاِنْ ھُوَاِلاَّ ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَo﴾(التکویر:۲۴تا۲۷)’’اور وہ جو باتیں غیب کی (اس کو معلوم ہوتی ہیں (اللہ بتلاتا ہے) ان کے بیان کر دینے میں بخیل نہیں ہے۔ اور قرآن شیطان مردود کا کلام نہیں ہے۔ تم لوگ کدھر (بہکے) جا رہے ہو (تمہارا کیا خیال ہے) یہ قرآن تو سارے جہانوں کے لیے نصیحت ہے۔‘‘
یعنی اسے بغیر کمی کے پورا پورا پہنچا دیتا ہے ’’ضنین‘‘ کے دوسرے معنی متہم کے بھی ہیں ۔ یعنی وحی کے بارے میں اس پر جھوٹ کی تہمت نہیں لگائی جا سکتی۔
حجۃ الوداع کے موقع پر ہزارھا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے بھی اس حق بات کی سچی گواہی دے دی تھی۔ تفصیل احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔