کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 195
دین حق دے کر تمام جنوں اور سب کے سب انسانوں (ثقلین) کی طرف مبعوث کیا گیاہے۔ اور جیسا کہ اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی قدر ہے، رب العالمین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کی طرف رحمت بنا کر بھیجا تھا۔ فرمایا: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ﴿١٠٧﴾ قُلْ إِنَّمَا يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ﴾ (الانبیاء:۱۰۷تا ۱۰۸) ’’اور (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے تو تمہیں سارے جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں سے) کہہ دے مجھے تو بس یہی وحی آتی ہے اور کچھ نہیں کہ تمہارا الٰہ وہی ایک اللہ ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔) ‘‘[1] اللہ عزوجل نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی کتاب (قرآن مجید) نازل فرمائی اور اپنے دین حنیف (اسلام) کی امانت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دی۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت کی تبلیغ کے لیے (کہ جو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سونپی تھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکلف
[1] صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ مسلمان ، کافر سب کے لیے اور دنیوی و اخروی ہر اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے۔ اسلامی اصول و شریعت کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جو اخلاقی قدریں اور دائمی اصول اللہ کے حبیب و خلیل نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے اللہ تعالیٰ نے متعین فرمائے ہیں وہ آج تک دنیا تلاش نہیں کر سکی۔ اس سے بڑی رحمت اور کیا ہو سکتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّمَا اَنَا رَحْمَۃٌ مُھْدَاۃٌ )) کہ میں تو مجسم رحمت ہوں جو لوگوں کواللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور ہدیہ دی گئی ہے۔ مسلمانوں کے لیے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رحمت ہونا عیاں ہے کہ ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے ہر قسم کی سعادت حاصل ہوئی۔ مگر کفار کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے رحمت ہیں ؟ اس کے جواب میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلی قوموں پر جو ہلاکت خیز عذاب آتے رہے تھے، وہ نبی آخر الزمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد روک دیے گئے ہیں ۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو جہل کے الزامات کے جواب میں فرمایا: ((وَلَاُھْدِ یَنَّھُمْ وَھُمْ کَارِھُوْنَ)) کہ میں ان کی نفرت کے باوجود ان کو ہدایت پر لانے کی کوششیں جاری رکھوں گا۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمت ہونے کا مفہوم واضح ہوتا ہے۔ (ابن کثیر، شوکانی)