کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 191
قرآن حکیم و عظیم میں درج ذیل پچیس رسولوں کے نام ذکر ہوئے ہیں :
ابوا البشر آدم ، ادریس ، نوح ، ہود، صالح، ابراہیم، لوط، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، یوسف ، شعیب ، ایوب۔ ذوالکفل، موسیٰ، ہارون، داود، سلیمان، الیاس ، الیسع، یونس، زکریا ، یحییٰ، عیسیٰ و محمد خاتم الانبیاء والرسل، صلوات اللّٰه وسلامہ علیھم أجمعین۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت تمام نبیوں پر:
اور جیسا کہ قرآن عظیم کا بیان ہے کہ:اللہ تبارک و تعالیٰ نے بعض نبیوں اور رسولوں کو دوسرے انبیاء و رسل پر فضیلت دی تھی۔[1] اور تمام امت اسلامیہ و محمدیہ رحمۃ اللہ علیہم کا اس بات پر اجماع ہے کہ:رسول ، انبیاء سے افضل ہو اکرتے تھے۔ اور پھر یہ کہ تمام رسول بھی باہم ایک دوسرے پر فضیلت رکھتے تھے۔ تمام رسولوں اور نبیوں میں سب
[1] ملکوں میں چل پھر کر دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے تباہ شدہ آثار دیکھ کر بتاؤ کہ رسولوں کی تکذیب کرنے والوں پر کیا اللہ تعالیٰ کا عذاب نہیں آیاتھا؟ لہٰذا یہ سمجھنا انتہائی حماقت ہے کہ کفر و شرک کا ارتکاب اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ اپنی رضا مندی کا راستہ بتایا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے پیغمبروں کی پیروی ضروری ہے۔
! جیسا کہ قرآن میں ایک اور مقام پر یوں بیان ہوا ہے: ’’یہ پیغمبر(یا سب پیغمبر) ان میں ہم نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی۔ ان میں سے کسی سے اللہ نے کلام کیا اور بعضوں کے درجے بلند کئے۔ اور ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو کھلی کھلی نشانیاں دیں اور روح القدس (جبریل) سے ان کی مدد کی (وہ ہمیشہ ان کے ساتھ رہتے تھے) اور اگر اللہ چاہتا تو بعد والے لوگ کھلی نشانیاں آجانے پر باہم اختلاف نہ کرتے لیکن (اللہ نے نہ چاہا) انہوں نے اختلاف کیا۔ چنانچہ کوئی مومن ہوا کوئی کافر۔ اور اگر اللہ چاہتا تو یہ پھوٹ نہ پڑتی لیکن اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔ ‘‘(البقرہ:۲۵۳)
’’تلک الرسل‘‘ سے وہ رسول ؐمراد ہیں جن کا اس سورۃ میں ذکر آیا ہے۔ یہ عقیدہ کہ انبیاء درجات میں مختلف ہیں اور ان میں تفاضل پایاجاتا ہے اور پھر یہ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے افضل ہیں بالکل صحیح اور امت کا اجماعی عقیدہ ہے۔ امام رازی رحمہ اللہ نے انہیں دلائل سے ثابت کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جملہ انبیاء پر فضیلت حاصل ہے اور اس سلسلہ میں شبہات کے جوابات دیے ہیں ۔ (تفسیر کبیر) لیکن صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((لاَتُفَضِّلُوْنِیْ عَلَی الْاَنْبِیَآئِ)) ’’کہ مجھے انبیاء پر فضیلت نہ دو ‘‘ جو بظاہر اس آیت کے معارض ہے۔ علمانے اس کے متعدد جوابات دیے ہیں ۔ واضح ترین جواب یہ ہے کہ میری فضیلت ایسے انداز سے بیان نہ کرو جس سے دوسرے انبیاء علیہم السلام کی کسر شان کا پہلو نکلتا ہو۔ امام شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس آیت سے انبیاء علیہا السلام کے مابین تفاضل ثابت ہوتا ہے۔ لیکن حدیث میں مقابلہ کی صورت میں تفاضل سے منع فرمایا ہے یا فضیلت جزوی مراد ہے۔ پس کتاب و سنت میں کوئی تعارض نہیں ۔ والحمد اللّٰہ علٰی ذٰلک (ابن کثیر۔ فتح القدیر)
جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ صحیح ابن حبان کی ایک حدیث میں حضرت آدم علیہ السلام کا بھی نبی مکلّم ہونا ثابت ہے۔ (ابن کثیر۔ تفسیر کبیر)
چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلۃ الاسرار میں بحسب مراتب آسمانوں پر انبیاء علیہم السلام کو دیکھا۔ (ابن کثیر)