کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 19
اچھی طرح سمجھے گا (یعنی قرآن و سنت کو قبول نہیں کرے گا) اور نہ ہی وہ بُری بات کو بُری جانے گا، (یعنی اس کے نزدیک نیکی اور بُرائی قطعاً ایک جیسی ہوں گی) مگر وہی اس کو اچھی لگے گی جو اس کے دل میں بیٹھ جائے۔‘‘ (جیسے آج کل نیچریوں کی نیچر ہے۔)
سیّدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :پھر میں نے امیر المؤمنین سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو حدیث بیان کی کہ:آپ کے اور ان فتنوں کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ مگرخدشہ ہے کہ وہ کہیں ٹوٹ نہ جائے۔ جناب عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے:تیرا باپ مرے! کیا یہ دروازہ ضروری ہے کہ ٹوٹ جائے؟ اگر کھل جائے تو شاید دوبارہ اس کو بند کیا جا سکے۔ میں نے عرض کیا:نہیں۔ بلکہ ضرور ٹوٹ جائے گا(اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ضمن میں اللہ عزوجل کی طرف سے فیصلہ کے بارے میں ایسا ہی ارشاد فرمایا ہے۔) اور پھر میں نے جناب عمر رضی اللہ عنہ کو حدیث بیان کی کہ:اس دروازے سے مراد ایک شخص ہے کہ جسے قتل کر کے شہید کر دیا جائے گا یا وہ خود طبعی موت سے دوچار ہو گا۔ (اور پھر اس کی موت و شہادت کے ساتھ ہی فتنوں کا آغاز ہو جائے گا۔) یہ ایک ایسی حدیث تھی جو غلطیوں سے پُر (دل سے بنائی ہوئی بات) نہ تھی۔‘‘ [1]
ز… جناب نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ :ہم مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے۔ بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث روایت کرنے سے باز رہتے تھے۔ اسی دوران ثعلبہ الخشنی رحمہ اللہ آگئے اور کہنے لگے:اے بشیر بن سعد! کیا اُمراء کے بارے میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث یاد ہے؟ (بشیر بن سعد تو خاموش رہے مگر) حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہنے لگے:مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خطبہ خوب یاد ہے۔ چنانچہ ابو ثعلبہ بیٹھ گئے اور جناب حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] صحیح مسلم، کتاب الایمان، حدیث: ۳۶۹