کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 189
ہم نے یہ سب پیغمبر جو خوشی سنانے والے تھے (نیکوں کو) اور ڈرانیوالے تھے (بدکاروں کو) اس لیے بھیجے کہ پیغمبروں کے آجانے کے بعد پھر کوئی عذر لوگوں کا اللہ کے سامنے باقی نہ رہے اور اللہ زبردست ہے حکمت والا۔ ‘‘ جیسا کہ ابھی ابھی پیچھے قرآن عظیم کے بیان سے معلوم ہوا کہ :اللہ تبارک نے اپنے رسول اور نبی جو مختلف ادوار میں زمین کے مختلف خطوں پر بسنے والے لوگوں کی طرف بھیجے تھے ان میں سے بہت سارے انبیاء و رسل کا ذکر ہمارے لیے اپنی کتاب یا اپنے حبیب وخلیل نبی آخر الزمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اطہر سے (ان کی احادیث مبارکہ میں) کر دیا ہے اور ان میں سے ایسے بھی ہیں کہ جن کے بارے میں اللہ عزوجل نے ہمیں خبر نہیں دی ہے۔ چنانچہ دوسرے ایک مقام پر اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں : ﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللّٰهِ ۚ فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللّٰهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ﴾ (المؤمن :۷۸) ’’اور (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) ہم تجھ سے پہلے بہت سارے پیغمبر بھیج چکے ہیں۔ ان میں کوئی ایسے ہیں جن کا حال ہم نے تجھ کو سنایا اور کوئی ایسے ہیں جن کا حال ہم نے تجھ کو نہیں سنایا۔ اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مقدور نہیں کہ بغیر اللہ کے حکم کے کوئی نشانی (معجزہ) دکھلائے۔ پھر جب اللہ کا حکم آن پہنچے گا (دنیا کا عذاب یا قیامت کا) تو ان پیغمبروں علیہم الصلوٰۃ والسلام اور ان کی امتوں کا انصاف سے فیصلہ کر دیا جائے گا۔ ‘‘[1] ہر پیغمبر کی دعوت کے حوالے سے ایک مقام پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے خبر
[1] یعنی بعض کا تفصیلی حال بیان کیا اور بعض کا نہیں کیا۔ بہر حال سب پر ایمان لانا ضروری ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : یہ لَمْ نَقَصُصْ ان پیغمبروں سے کئی گناہ کثیر تعداد میں ہیں جن کے احوال قرآن میں مذکور ہیں ۔ جیسا کہ سورۃ نساء:(آیت :۱۶۴) میں اس پر تنبیہ گزر چکی ہے وللہ الحمد والمنہ۔ کسی قوم کے کسی قدیم رہنما کے متعلق جو (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہو گزرے ہیں ) قطعی طور پر یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ نبی نہ تھا۔ ممکن ہے کہ وہ نبی ہو اور اس نے توحید ہی کی دعوت پیش کی ہو مگر بعد کے لوگوں نے اس کی تعلیمات کو مسخ کر دیا ہو۔ مطلب یہ ہے کہ معجزہ کوئی کھیل نہیں کہ کافروں نے جب چاہا نبی علیہ السلام سے اس کا مطالبہ کر دیا اور نبی نے جب چاہا اسے دکھا دیا۔ بلکہ اس کی حیثیت دو ٹوک فیصلے کی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ ہی جب چاہتا ہے اسے اپنے کسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے دکھواتا ہے اور جب تک نہیں چاہتا نہیں دکھواتا۔ معجزہ ظاہر ہونے کے بعد مومنوں کی نجات اور باطل پرستوں کی تباہی یقینی ہو جاتی ہے۔ یہ کفارِ مکہ کے اس مطالبہ کا جواب ہے جو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزہ دکھانے کے لیے آئے دن کرتے رہتے تھے۔