کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 184
جَبَّارٍ﴾ (المؤمن :۳۵)
’’وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی آیات میں جھگڑتے ہیں بغیر کسی دلیل کے جو ان کے پاس آئی ہو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور ایمان والوں کے نزدیک نہایت ناراضگی کی بات ہے۔ اس کے دل پر کہ جو متکبر، سرکش ہو اسی طرح مہر لگا دیتا ہے۔ ‘‘
تیسرے مقام پر فرمایا:
﴿قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾ (الاعراف:۳۳)
’’(اے پیغمبر) کہہ دے میرے رب نے تو صرف (بے شرمی کے) بُرے کاموں کو (جیسے زنا، اغلام وغیرہ کو) حرام کیا ہے، کھلم کھلا ہو یا چھپا کر۔ اور گناہ کو، اور ناحق ستانے کو (یعنی ظلم کو) اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنے کو، جس کی اس نے کوئی سند نہیں اتاری اور اللہ تعالیٰ پر وہ بات لگانے کو جو تم کو معلوم نہیں۔‘‘ [1]
بلکہ یہ اہل السنۃ والجماعۃ اہل الحدیث جماعت حَقّہ و فرقہ ناجیہ والے سلفی لوگ :
(ا)… قران کی تفسیر خود قرآنِ عظیم و حکیم سے۔
[1] اوپر کی آیت میں یہ بیان فرمایا کہ لوگوں نے اپنی طرف سے بہت سی چیزیں حرام کر رکھی تھیں ۔ اب اس آیت میں محرمات کو بیان فرما دیا۔ (رازی) جب مسلمانوں نے کپڑے پہن کر طواف کرنا شروع کیا تو کفار نے ان پر عیب لگایا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (قرطبی)
الفواحش…یہ فاحشۃ کی جمع ہے اور انتہائی قبیح فعل کو کہتے ہیں ۔ الاثم سے تمام چھوٹے بڑے گناہ مراد ہیں اور شراب کو بھی اِثْمٌ کہہ لیتے ہیں ۔ اور اَلْبَغْیُ کے معنی لو گوں پر ظلم اور زیادتی کے ہیں ، الغرض یہاں محرمات کی پانچ قسمیں بیان فرمائی ہیں اور وہ بھی ’’ اِنّمَا ‘‘ کلمہ حصر کے ساتھ۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ان کے علاوہ اور کوئی چیز حرام نہیں ہے۔ حالانکہ بہت سی دوسری اشیاء کی حرمت بھی قرآن و حدیث میں مذکور ہے۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ دراصل جنایات پانچ ہی قسم کی ہیں : جنایۃ علی الانساب اور اس کا سبب زنا ہے۔ الفواحش سے یہی مراد ہے۔ دوم جنایۃ علی العقول جس کے دوسرے معنی شراب نوشی کے ہیں اور ’’الاثم‘‘ میں اسی طرف اشارہ ہے۔ سوم جنایۃ علی الاعراض چہارم جنایۃ علی النفوس والاموال اور ’’ البغی بغیر الحق‘‘ میں ان دونوں کی حرمت کی طرف اشارہ ہے۔ پنجم جنایۃ علی الادیان اور یہ دو قسم کی ہیں : توحین میں طعن کرنا۔ جس کی طرف و َاَن تُشْرِکُوْا باللّٰہ سے اشارہ فرمایا ہے اور بغیر علم کے فتویٰ دینا جس کی طرف وان تقولوا علی اللّٰہ ما لا تعلمون سے اشارہ فرمایا ہے۔ غرض کہ جملہ جنایات میں یہ پانچ اُصول کی حیثیت رکھتی ہیں اور باقی ان کے فروغ اور توابع ہیں ۔ اس بنا پر اِنَّمَا کے ساتھ حصر صحیح ہے اور اس پر کوئی اعتراض لازم نہیں آتا۔ (تفسیر کبیر)