کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 183
میم ایک (تیسرا) حرف ہے۔‘‘ (تو ’’ الٓـمٓ ‘‘ پڑھنے والے کو اس طرح سے تیس نیکیاں عطا ہوں گی۔) اہل السنۃ والجماعۃ اہل الحدیث سلفی جماعت حقہ کے لوگ قرآنِ عظیم کی مجرد رائے کے ساتھ تفسیر کو مباح اور جائز نہیں سمجھتے۔ اس لیے کہ یوں تو یہ تفسیر اللہ عزوجل پر بغیر علم کے کوئی غلط بات گھڑ لینے کے مترادف ہو گی اور یہ شیطان کا عمل شمار ہو گا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿١٦٨﴾ إِنَّمَا يَأْمُرُكُم بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾ (البقرہ:۱۶۸۔۱۶۹) ’’لوگو! زمین میں جو چیزیں حلال، پاکیزہ ہیں ان کو کھاؤ اور شیطان کی راہوں پر مت چلو۔ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تو تم کو برائی اور بے شرمی کے کام اور اللہ پر بن سمجھے جھوٹ بولنے کو (یعنی بہتان لگانے کو) کہے گا۔ ‘‘[1] ﴿الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللّٰهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ ۖ كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللّٰهِ وَعِندَ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ اللّٰهُ عَلَىٰ كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ
[1] یعنی شیاطین ایک طرف تو معاشرے میں اخلاقی برائیوں (سوء فحشاء) کو فروغ دیتے ہیں اور دوسری طرف دین میں بدعات پیدا کر کے لوگوں کے عقائدو اعمال خراب کرتے ہیں ۔ ہر وہ بات جو کتاب و سنت سے ثابت نہ ہو وہ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ میں داخل ہے۔ اسی سلسلہ بیان کے لیے دیکھیں : سورۃ الاعراف: ۲۸) ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ السوء اس برائی کو کہتے ہیں جس میں کوئی حد شرعی معین نہ ہو اور فحشا وہ برائی ہے جس کے ارتکاب پر شرعی حد معیّن ہو۔ (تفسیر قرطبی)