کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 177
اسے حکیم و خبیر اللہ ذوالعرش المجید نے نہایت واضح فصیح عربی زبان میں نازل فرمایا ہے۔ اور یہ قرآن عظیم ہم تک اُس تواتر کے ساتھ نقل ہو کر پہنچا ہے کہ جس کی طرف کوئی کسی قسم کا شک و شبہ راہ پا ہی نہیں سکتا۔ چنانچہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں :
﴿وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٩٢﴾ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ ﴿١٩٣﴾ عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ ﴿١٩٤﴾ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِينٍ ﴿١٩٥﴾ وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ ﴿١٩٦﴾ أَوَلَمْ يَكُن لَّهُمْ آيَةً أَن يَعْلَمَهُ عُلَمَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ﴾ (الشعراء:۱۹۲تا۱۹۷)
’’اور بے شک یہ قرآن اسی کا اتارا ہوا ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔ اس کو سچی (امانتدار) روح (یعنی جبریل) صاف عربی زبان میں لے کر تیرے دل پر اتری ہے تاکہ تو لوگوں کو (اللہ کے عذاب سے) ڈرائے اور یہ (یعنی قرآن) اگلے پیغمبروں کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ کیا ان کافروں کو (یعنی مکہ کے مشرکوں کو) یہ نشانی(بس) نہیں ہے کہ بنی اسرائیل کے عالم لوگ اس کو جانتے ہیں۔ ‘‘[1]
[1] شروع سورت میں تمہیداً قرآن کے ذکر سے مقصود نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت کا اثبات تھا۔ پھر مکذّبین کو دھمکی دی اور اس سلسلہ میں انبیاء کے سات قصے بیان فرمائے تا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی ہو اور آپ کی تکذیب کرنے والے عبرت حاصل کریں ۔ اب یہاں سے پھر رسالت کا اثبات شروع کیا اور صحت نبوت کے دلائل اور کفار کے شبہات کے جواب آخر رسوت تک چلے گئے۔ (طیبر۔ قرطبی)
متعلق بِنَزَلَ لَا بِالْاَمِیْن۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر اس کی تلات کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے الفاظ و مضامین اچھی طرح یاد کرلیں ۔ اس میں اشارہ ہے کہ قرآن نبی مکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک میں بالکل محفوظ ہے اس میں تغیر ممکن نہیں ۔ (شوکانی۔ کبیر) معلوم ہوا کہ جبریل علیہ السلام یہی قرآن لے کر آئے ہیں جو عربی زبان میں ہے۔ قرآن کے الفاظ اور معنی دونوں اللہ کے کلا م ہیں ۔ متکلمین اور فلاسفہ نے نزولِ وحی کی کیفیت میں جو تفاصیل بیان کی ہیں وہ ان کے اپنے وجدانی کوائف ہیں یا قیاس آرائیاں ہیں ۔قرآن و حدیث کی نصوص سے ان کی تائید نہیں ملتی۔ واللہ اعلم۔
پہلے پیغمبروں کی کتابوں میں موجود ہے کا مطلب ہے کہ: اپنے ان احکام و تعلیمات کے اعتبار سے جن پر تمام شریعتوں کا اتفاق ہے یا ’’ اس قرآن کی خبر لکھی ہے اگلی کتابوں میں اور اکثر اس کا مدعا بھی یہی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ’’إِنَّہُ‘‘ میں ’’ہ‘‘ ضمیرسے نبی کریم مراد ہوں ۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی بشارت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف پہلی کتابوں میں موجود ہیں ۔ جیسے فرمایا: یَجِدُوْنَہُ مَکْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَالْاِنْجِیْلِ‘‘ کہ جن کے اوصاف کو وہ اپنے ہاں توراۃ اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ۔ (اعراف: ۱۵۷) اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا: وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَأْتِیْ مِنْ بَعْدِیْ اسْمُہُ اَحْمَدُ ، اور اپنے بعد ایک رسول کے آنے کی بشارت دیتا ہوں جس کا نام احمد ہو گا۔ (دیکھئے سورۃ صف:۶)
علمائِ بنی اسرائیل کے جاننے کا مطلب ہے: کیا مشرکین مکہ کے یہ جاننے کے لیے کہ قرآن واقعی برحق اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ اور پہلی کتابوں میں مذکور ہے اور یہ کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) نبی اخر الزمان ہیں ، یہ بات کافی نہیں ہے کہ بنی اسرائیل کے علمااس سے واقف ہیں ۔ جیسا کہ ان حضرات کی شہادت سے معلوم ہوا ہے جو ان میں سے ایمان لائے۔ مثلا عبداللہ بن سلام اور حضرت سلمان فارسی وغیرھما رضی اللہ عنہم اہلِ کتاب کی یہ شہادت مشرکین مکہ کے حق میں اس لیے حجت قرار پاتی ہے کہ وہ پچھلی کتابوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے انہی کی طرف رجوع کرتے اور جو بات وہ کہتے اسے صحیح تسلیم کرتے تھے۔