کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 168
رہے اور اس لیے کہ کافر اور جن کے دل میں (شک کی) بیماری ہے وہ یوں کہیں :بھلا اس انیس کی گنتی سے اللہ تعالیٰ کی کیا غرض ہے؟ اللہ تعالیٰ اسی طرح جس کو چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے۔ اور جس کو چاہتا ہے راہ پر لاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے لشکر کو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ اور یہ باتیں تو بس لوگوں کی نصیحت کے لیے بیان کی گئی ہیں۔‘‘ فرشتوں کو اللہ رب العالمین نے ہم سے چھپا کر رکھا ہے۔ ہم اُن کو اُن کی اصلی صورت میں نہیں دیکھ سکتے کہ جس ہیئت پر اُن کو پیدا کیا گیا ہے۔ ہاں ! البتہ ایسا ضرور ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بنی آدم میں سے اپنے بعض بندوں پر اُن کو منکشف ضرور کیا تھا۔ جیسا کہ نبی مکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا جبریل علیہ السلام کو ان کی اپنی اصلی صورت میں کہ جس ہیئت و شکل پر رب کبریاء نے اُن کو پیدا فرمایا ہے۔ دو دفعہ دیکھا تھا۔ چنانچہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں : ﴿وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ ﴿١٣﴾ عِندَ سِدْرَةِ الْمُنتَهَىٰ ﴿١٤﴾ عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىٰ﴾ (النجم:۱۳تا۱۵) ’’بالتحقیق اللہ کا پیغمبر تو اس کو (جبرئیل علیہ السلام کو) ایک بار اور دیکھ چکا ہے سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔ اسی کے پاس جنت ہے جو بہترین ٹھکانا ہے۔‘‘ ﴿وَمَا صَاحِبُكُم بِمَجْنُونٍ ﴿٢٢﴾ وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ﴾ (التکویر:۲۲ تا ۲۳) ’’اور (اے مکہ والو) تمہارا ساتھی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) باولا نہیں ہے (جیسے تم سمجھتے ہو) اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فرشتے کو آسمان کے صاف کھلے ہوئے کنارے میں دیکھا ہے۔‘‘ [1]
[1] یعنی نبی مکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام کو آسمان کے کھلے کنارے پر ان کی اصلی شکل میں دیکھا۔ یہ واقعہ مقامِ بطحا کا ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔