کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 165
۱۰…اور ان میں سے بعض فرشتوں کی ذمہ داری انسان کے ساتھ رہنے کی ہے۔ وہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہتے ہیں ، کبھی اُس سے جدا نہیں ہوتے حتی کہ آدمی کو موت آجائے۔ جیسا کہ سورۂ ق میں مذکور ہے:﴿إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ ﴿١٧﴾ مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ ﴿١٨﴾ وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ۖ ذَٰلِكَ مَا كُنتَ مِنْهُ تَحِيدُ﴾ (قٓ:۱۷ تا ۱۹) ’’جب دو (لکھ) لینے والے (فرشتے) داہنی اور بائیں طرف بیٹھے ہوئے لکھتے چلے جاتے ہیں۔ منہ سے بات نکالنے کی دیر ہے کہ اس کے پاس ایک (فرشتہ) تیار ہوتا ہے جو راہ دیکھ رہا ہوتا ہے اور موت کی بے ہوشی (سب) حقیقت کھول دے گی۔ (اس وقت اس سے کہا جائے گا) یہی تو وہ ہے (یعنی موت) جس سے تو ڈر کر بھاگتا پھرتا تھا۔ ‘‘[1] ۱۱۔ بعض فرشتوں کے ذمہ ہے کہ وہ بندوں کو عمل خیر کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ (اور برائیوں سے روکتے ہیں۔جیسا کہ صحیح احادیث میں مذکور ہے۔) ۱۲۔ بعض فرشتے صالح لوگوں کے جنازوں میں حاضر ہوتے ہیں۔ اور ایسے بھی
[1] مراد کرام کاتبین فرشتے ہیں جن میں سے دائیں طرف والا فرشتہ نیکیاں اور بائیں طرف والا برائیاں لکھتا ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ بندے کے تمام اعمال کو خوب جانتا ہے لیکن فرشتوں کے ذریعے اعمال کے ریکارڈ رکھنے کا اہتمام اتمامِ حجت کے لیے ہے کہ قیامت کے دن انسان اپنے کسی عمل سے مکر نہ سکے۔یعنی جونہی انسان منہ سے کوئی بات نکالتا ہے فرشتہ لکھ لیتا ہے۔ (نیز دیکھیے: انفطار ۱۰،۱۲) ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ فرشتہ اس کی ہر بات لکھتا ہے حتی کہ اس کا یہ کہنا بھی کہ میں نے کھانا کھایا میں نے پانی پیا وغیرہ۔ پھر جمعرات کے روزوہ اپنا لکھا ہوا ریکارڈ (اللہ کے سامنے) پیش کرتا ہے اور پھر انہی باتوں کو باقی رکھتا ہے جن کا تعلق ثواب یا عقاب سے ہوتا ہے اور دوسری باتوں کو مٹا دیتا ہے۔ یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کا ’’یَمْحُوا اللّٰہَ مَا یَشَائُ وَ یُثْبِتُ‘‘ کہ اللہ جو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے۔ ‘‘ صحیحین میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کے دل میں آنے و الے خیال معاف کر دیے جب تک انہیں منہ سے نہ نکالے یا ان پر عمل نہ کرے۔‘‘ (شوکانی)