کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 162
۶…ان میں سے ایسے فرشتے بھی ہیں کہ اہل ایمان و اسلام کی روحیں قبض کرنے کا کام جن کے سپرد کیا گیا ہے اور بعض کے ذمہ کافروں کی روحیں نکالنے کا کام سپرد ہے۔ [1]
[1] جیسا کہ اللہ عزوجل کا ارشادِ گرامی قدر ہے: (۱)… ﴿وَھُوَ الْقَاھِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ وَ یُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَۃً حَتَّی اِذَا جَآئَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَ ھُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ o ﴾ (الانعام:۶۱) ’’اور وہ زبردست ہے اپنے بندوں کے اوپر (عرش معلی پر) اور تم پر چوکیدار (فرشتے) مقرر کرتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت آتی ہے تو ہمارے فرشتے اس کی جان اٹھا لیتے ہیں اور وہ (حکم میں ) کوتاہی نہیں کرتے۔‘‘ یعنی جس کی جان قبض کرتے ہیں اللہ کے حکم سے اس کے مقرر وقت پر کرتے ہیں ۔ نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد۔ اصل میں جان تو ملک الموت قبض کرتا ہے مگر اس کے ساتھ رحمت اور عذاب کے فرشتے ہوتے ہیں ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے دریافت کیا کہ آیا موت کا فرشتہ ایک ہے یا بہت سے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہی جواب دیا اور دلیل میں یہ آیت تلاوت کی (تفسیر المنار) نیز دیکھئے سورۃ سجدہ آیت ۱۱۔ درحقیقت موت و حیاۃ تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے (حج :۶۶) مگر فرشتے چونکہ اس کی طرف سے مامور ہیں اس لیے ان کی طرف بھی روح قبض کرنے کی نسبت کر دی گئی ہے۔(قرطبی) (۲)…﴿وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَلَمْ یُوْحَ اِلَیْہِ شَیْئٌ وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ ط وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوْٓا اَیْدِیْھِمْ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَکُمْط اَ لْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْھُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ o ﴾ (الانعام :۹۳) ’’اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے ـ (پیغمبر نہ ہو اور پیغمبری کا دعوے کرے) یا یوں کہے کہ مجھ پر (اللہ کی طرف سے) وحی آئی اور اس پر کوئی وحی نہ آئی ہو۔ اور (اسی طرح اس سے بڑھ کر کون ظالم ہو گا) جو کہے میں بھی ایسا ہی قرآن (اتاروں ) گا جیسے اللہ نے اتارا ہے۔ کاش تو ان ظالموں کو اس وقت دیکھے جب موت کی سختیوں (سکرات) میں پڑے ہوں اور فرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے (کہہ رہے ہوں :) اپنی جانیں نکالو۔ آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا ملے گی۔ اس لیے کہ تم خدا پر جھوٹ بولتے تھے۔ اور تم اس کی آیتوں پر اکڑ جاتے تھے۔‘‘ (۳)… ﴿فَکَیْفَ اِِذَا تَوَفَّتْہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْہَہُمْ وَاَدْبَارَہُمْo ﴾ (محمد:۲۷) ’’جب فرشتے ان کی جان نکالتے وقت ان کے منہ اور پیٹھ پر مار لگائیں گے اس وقت ان کا کیا حال ہو گا۔ ‘‘ (۴)…﴿الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَیْکُمُ ادْخُلُوْا الْجَنَّۃَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo ﴾ (النحل:۳۲) ’’جن کی جانیں فرشتے جب نکالتے ہیں تو وہ (کفر اور شرک سے پاک) ہوتے ہیں ۔ فرشتے کہتے ہیں تم سلامت رہو۔ اپنے (نیک) کاموں کے بدل بہشت میں جاؤ۔‘‘ (۵)… ﴿وَ لَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَ اَدْبَارَھُمْ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِo ﴾ (الانفال: ۵۰) ’’اور (اے پیغمبرؐ!) کاش تو (وہ حال) دیکھتا جب فرشتے (بدر کے دن) ان کافروں کی جان نکال رہے تھے۔ سامنے اور پیچھے (دونوں طرف) سے اُن کو مار رہے تھے اور (کہتے جاتے تھے) جلانے والے عذاب کا مزہ چکھو۔‘‘