کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 158
[1]شادی، نکاح کرتے ہیں اور نہ ہی یہ باہمی میل ملاپ کے ذریعے (جنوں ، انسانوں اور دیگر جاندار متحرک بالا رادہ مخلوقات کی طرح) افزائش نسل کرتے ہیں۔ اور فرشتے نہ کھاتے ہیں اور نہ ہی کچھ پیتے ہیں۔ بلکہ اُن کی خوراک اللہ عزوجل کی تسبیح و تہلیل اور تحمید ہے۔ (یعنی سُبْحَانَ اللّٰہِ ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ اور لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ پڑھتے رہنا) اس سے وہ اُکتاتے نہیں ، نہ ہی وہ اس عمل سے رُکتے ہیں اور نہ ہی تھکتے ہیں۔ فرشتے نہایت ہی حسین و جمیل ہوتے ہیں۔ یہ شرم و حیاء کے پتلے ہوتے ہیں اور اللہ کی طرف سے دی گئی ذمہ داریوں میں انتظام و انصرام کے بہت ہی ماہر اور پابند۔ فرشتے بنی نوع بشر سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ اس بنا پر کہ ان کی خلقت و فطرت
[1] ((۱)…﴿لَنْ یَّسْتَنْکِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّکُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰہِ وَ لَا الْمَلٰٓئِکَۃُ الْمُقَرَّبُوْنَ ط وَ مَنْ یَّسْتَنْکِفْ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَ یَسْتَکْبِرْ فَسَیَحْشُرُھُمْ اِلَیْہِ جَمِیْعًاo﴾ (النساء:۱۷۲) ’’عیسیٰ مسیح اللہ تعالیٰ کا بندہ ہونے سے کبھی برا نہیں ماننے کا اور نہ (خدا کے) نزدیک والے فرشتے (برا مانیں گے)۔ اور جو خدا کی بندگی میں شرم کرے (اس سے کترائے) اور اپنے تئیں بڑا سمجھے تو اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے پاس اکٹھا کرنے والا ہے۔ ‘‘ اس میں عیسائیوں اور مشرکین دونوں کے غلط عقیدہ کی تردید ہے۔ کیونکہ عیسائی حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا اور مشرکین فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ یہ دونوں اللہ رب العالمین کی بندگی کا اقرار کرتے ہیں اور اس کا بندہ ہونے پر کچھ بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ یہی حال ہمارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا۔ جب کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا بندہ کہتا تو آپ کو بے انتہا خوشی ہوتی۔ کیونکہ اس مالک الملک اور شہنشاہ مطلق کا بندہ ہونا انتہائی عزت و شرف کا مقام ہے نہ کہ کسی ذلت و رسوائی کا۔ امام ابن القلیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب انورا القلوب میں لکھا ہے کہ آدمی کے لیے بندگی کے مقام سے زیادہ عزت کا کوئی مقام نہیں ہے۔ اکرم الخلق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین مقامات پر جو کہ نہایت عزت کے مقامات ہیں ۔ لفظ ’’عبد‘‘ (بندہ) کہہ کر ذکر کیا گیا ہے۔ (۲)… ﴿اِِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْآخِرَۃِ لَیُسَمُّوْنَ الْمَلٰٓئِکَۃَ تَسْمِیَۃَ الْاُنْثٰی o وَمَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ ط اِِنْ یَتَّبِعُوْنَ اِِلَّا الظَّنَّ وَاِِنَّ الظَّنَّ لاَ یُغْنِی مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا o﴾ (النجم:۲۷ تا ۲۸) ’’جو لوگ آخرت کا یقین نہیں رکھتے وہی فرشتوں پر عورت ذات کا نام دھرتے ہیں (ان کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے ہیں ) اور ان کو اس با ت کی کوئی تحقیق نہیں ہے (کہ فرشتے عورت ذات ہیں ) وہ اور کچھ نہیں صرف اٹکل (گمان) پر چلتے ہیں اور گمان وہاں کچھ کام نہیں آتا جہاں پر یقین چاہیے۔‘‘ (۳)… ﴿وَجَعَلُوا الْمَلٰٓئِکَۃَ الَّذِیْنَ ہُمْ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ اِِنَاثًا ط اَشَہِدُوا خَلْقَہُمْ سَتُکْتَبُ شَہَادَتُہُمْ وَیُسْاَلُوْنَ o وَقَالُوْا لَوْ شَآئَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنَاہُمْ طمَا لَہُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ اِِنْ ہُمْ اِِلَّا یَخْرُصُونَo﴾ (الزخرف :۱۹تا ۲۰)’’اور ان کافروں نے فرشتوں کو جو اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں عورت ذات ٹھہرایا۔ (کوئی ان سے پوچھے) کیا جس وقت فرشتے پیدا ہوئے اس وقت یہ لوگ موجود تھے ان کی بات لکھ لی جائے گی اور (قیامت کے دن) ان سے پرسش ہو گی۔ اور یہ کافر کہتے ہیں کہ اگر خدا چاہتا تو ہم فرشتوں کی پوجا نہ کرتے۔ ان کو اس کا کوئی علم نہیں ہے۔ وہ کچھ اور نہیں صرف اٹکلیں دوڑاتے ہیں ۔‘‘