کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 157
فَمَا لَبِثَ أَن جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ ﴿٦٩﴾ فَلَمَّا رَأَىٰ أَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً ۚ قَالُوا لَا تَخَفْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَىٰ قَوْمِ لُوطٍ﴾ (ہود:۶۹،۷۰) ’’اور ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے)ابراہیم کے پاس خوش خبری لے کر آچکے ہیں۔ (فرشتوں نے) کہا سلام۔ابراہیم نے جواب دیا سلام۔ پھر کچھ دیر نہیں ہوئی تھی کہ ابراہیم ایک بھنا ہوا بچھڑا (اُن کے کھانے کے لیے) لے کر آیا مگر جب ابراہیم نے دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھ بچھڑے کی طرف نہیں بڑھا رہے تو بُرا مانا (یا اُن کو نیا اور اجنبی سمجھا) اور دل ہی دل میں ڈر گیا۔انہوں نے کہا :مت ڈر ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ (ہم فرشتے ہیں تیرے مالک کے بھیجے ہوئے)۔‘‘ [1] فرشتے اللہ عزوجل کے نہایت معزز اور مقرب ہوتے ہیں۔ نہ ہی یہ مذکر والی صفت کے ساتھ موصوف ہیں اور نہ ہی مؤنث والی صفت کے ساتھ۔[2] نہ ہی فرشتے
[1] ان فرشتوں کی آمد کا مقصد حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر عذاب نازل کرنا تھا۔ راستے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بستی سے گزرے جس سے مقصد خوش خبری سنانا تھا اور وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاں بطورِ مہمان ٹھہرے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حسب عادت مہمان نوازی کرنا چاہی۔ یہاں ’’بشریٰ‘‘ خوش خبری سے مراد حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی بیوی سارہ کو بیٹے کی خو ش خبری ہے۔(شوکانی وغیرہ) اس سے معلوم ہوا کہ فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاں انسانی شکل میں پہنچے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خیال کیا کہ پردیسی مہمان ہیں اس لیے انہوں نے مہمانی کا اہتمام کیا۔ ابراہیم علیہ السلام اس لیے ڈر گئے کہ ان کے علاقے میں اگر کوئی اجنبی آتا اور وہ مہمانی میں پیش کیا ہوا کھانا قبول نہ کرتا تو اس کے متعلق سمجھا جاتا کہ وہ کسی بُرے ارادے سے آیا ہے۔ اور شاید یہی قرین قیاس ہو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے کھانا تناول نہ کرنے کی وجہ سے ان کے فرشتے ہونے کو بھانپ لیا ہو اور وہ اس بنا پر ڈر گئے ہوں کہ یہ ان کی بستی پر عذاب نازل کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں ۔ (شوکانی) [2] جیسا کہ قرآن میں اللہ عزوجل کی گواہی موجود ہے: (