کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 156
﴿قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا﴾ (مریم:۱۶ تا ۱۸) ’’اور (اے پیغمبرؐ!) قرآن میں مریم کا (قصہ) بیان کر جب وہ (اپنے لوگوں سے) الگ ہو کر (مسجد سے) پورب کی طرف ایک جگہ جا بیٹھی۔ تو اس نے ان کی طرف سے آڑ کر لی (نہانے کے لیے یا سر میں سے جوئی نکالنے کے لیے) پھر ہم نے اپنی روح (حضرت جبرائیل علیہ السلام) کو اس کے پاس بھیجا۔ وہ اچھا خاصا پورے آدمی کی شکل بن کر اس کے سامن آگیا۔ کہنے لگی میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں۔ اگر تو (اللہ سے) ڈرتا ہے۔ وہ کہنے لگا:میں تو تیرے مالک کا بھیجا ہوا ہوں۔ اس لیے آیا ہوں کہ تجھ کو ایک پاک لڑکا دوں۔ ‘‘[1] ﴿وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَىٰ قَالُوا سَلَامًا ۖ قَالَ سَلَامٌ ۖ
[1] بعض مفسرین نے اگرچہ ’’رُوْحَنَا ‘‘ (ہماری روح) سے مرادحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح مراد لی ہے مگر زیادہ تر قرین قیاس یہی ہے کہ اس سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہی لیے جائیں ۔ جیسا کہ آگے فرمایا جا رہا ہے کہ وہ ایک اچھے خاصے پورے آدمی کی شکل میں ان کے سامنے آگیا۔ (فتح القدیر) یعنی دیکھنے میں تم نہایت پاک باز اور پرہیز گار نظر آرہے ہو۔ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتی ہوں کہ میرے پاس سے چلے جاؤ اور مجھ سے کوئی تعرض نہ کرو۔ (شوکانی)