کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 155
[1] لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا ﴿١٧﴾ قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَـٰنِ مِنكَ إِن كُنتَ تَقِيًّا﴾
[1] ( (۲)… ﴿اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اَنِّیْ مُمِدُّکُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُرْدِفِیْنَo وَ مَا جَعَلَہُ اللّٰہُ اِلَّا بُشْرٰی وَلِتَطْمَئِنَّ بِہٖ قُلُوْبُکُمْ وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمo﴾ (الانفال: ۹، ۱۰)’’جب تم اپنے مالک سے فریاد کرتے تھے تو اس نے تمہاری فریا د سن لی۔ (اور فرمایا) کہ میں تمہاری مدد ایک ہزار فرشتوں سے کروں گا۔ اُن کے پیچھے اور فرشتے ہوں گے اور یہ فرشتوں کی مدد جو اللہ تعالیٰ نے بھیجی تو صرف تم کو خوش کرنے کے لیے اور تمہارے دلوں کو اطمینان دینے کے لیے ورنہ (در حقیقت) اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہے زبر دست حکمت والا۔‘‘
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی طرف اشارہ ہے جیساکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: بدر کے روز کافرو ں کی تعداد ایک ہزار اور مسلمانوں کی تعداد ۳۱۷ تھی۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صورتِ حال دیکھی تو قبلہ رُخ ہوئے اور ہاتھ اُٹھا کر نہایت عاجزی سے دعا فرمانے لگے: ’’اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اسے پورا فرما۔ اے اللہ! تو نے مجھ سے جس چیز کا وعدہ کیا ہے ، وہ عطا فرما۔ اے اللہ! اگر تو نے اہل اسلام کے اس گروہ کو ہلاک کر ڈالا تو روئے زمین پر تیری بندگی کرنے والا کوئی نہ رہے گا۔‘‘ (صحیح مسلم۔ ابو داؤد)
یا ایک ہزار پے در پے آنے والے فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا۔ چنانچہ فرشتے نازل ہوئے اور انہوں نے جنگ میں شرکت کی۔ جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے۔ اورصحیح بخاری میں ’’باب شہود الملائکۃ بدراً ‘‘ کے تحت رفاعۃ رضی اللہ عنہ بن رافع بدری سے روایت ہے جس میں حضرت جبریل علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جس طرح بدری صحابہ رضی اللہ عنہم سب سے افضل ہیں اسی طرح جو فرشتے بدر میں حاضر ہوئے وہ دو سرے فرشتوں سے افضل ہیں ۔ (ابن کثیر) آیت کے ان الفاظ سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ فرشتوں نے خود لڑنے میں کوئی حصہ نہیں لیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مسلمانوں کی مدد کے لیے محض اس لیے بھیجا تھا کہ ان کے حوصلے بلند ہوں اور انہیں اطمینان رہے کہ ان کی مدد کے لیے فرشتے موجود ہیں ۔ لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث سے صراحۃً معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں نے لڑائی میں بھی حصہ لیا۔ اگرچہ غزوۂ بدر کیعلاوہ کسی دوسری جنگ میں انہوں نے لڑ کر حصہ نہیں لیا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جنگ بدر کے موقع پر ایک انصاری مسلمان کسی کافر کا پیچھا کر رہا تھا کہ اچانک اس نے او پر سے ایک کوڑے کی آواز سنی اور ایک گھڑ سوار نے اپنے گھوڑے کو پکارا حیزوم! ’’آگے بڑھو۔‘‘ اس نے اپنے سامنے کافر کو دیکھا کہ وہ لڑ کھڑا کر گرا اور گرتے ہوئے ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ اس انصاری نے اس واقعہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم نے سچ کہا یہ تیسرے آسمان کی مدد تھی۔‘‘ (ابن کثیر بحوالہ صحیح مسلم)
(۳)… ﴿ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَاَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا وَعَذَّبَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَذٰلِکَ جَزَآئُ الْکٰفِرِیْنَ o ﴾ (التوبہ: ۲۶) ’’پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر اور مسلمانوں (پر جو غزوۂ حنین کے موقع پر بھاگ گئے تھے یا جو نہیں بھاگے تھے یا سب پر) اپنی تسلی اُتا ری اور ایسے لشکروں (فرشتوں ) کو اُتا را جن کو تم نے نہیں دیکھا تھا اور کا فروں پر عذاب کیا (اُن کو مارا )اور کا فروں کی یہی سزا ہے۔‘‘