کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 14
کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن کی قسم گواہی سے پہلے اور گواہی قسم سے پہلے ہو گی۔‘‘ (یعنی قسم کھانے اور گواہی دینے میں ان کو کوئی باک ہی نہ ہو گا۔) الفاظ کے مختلف صیغوں سے مروی مذکور بالا صحیحین کی حدیث میں بیان شدہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قرن سے مراد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں۔ دوسرے قرن سے مراد تابعین عظام اور تیسرے قرن(زمانہ) سے مراد تبع تابعین کرام ہیں۔ رحمہم اللہ جمیعاً۔ بعض علماء کرام کے نزدیک قرن ساٹھ برس کا ہوتا ہے اور بعض کے نزدیک سو سال کا۔ تمام روایات و احادیث کی جمع و تطبیق سے یہ بات زیادہ اوثق معلوم ہوتی ہے کہ :پہلا قرن یعنی صحابہ کرام کا دور ایک سو برس تک رہا۔ سب سے آخری صحابی ابوالطفیل رضی اللہ عنہ تھے جن کا انتقال ۱۲۰ ہجری میں ہوا۔ تابعین عظام کا زمانہ ۱۷۰ ھجری میں اختتام پذیر ہوا۔ اور تبع تابعین کا دور ۲۲۰ ھجری تک رہا۔ (تفصیل کے لیے شرح نووی دیکھ لیجیے۔) ج… سیّدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں سوال کیا کرتے تھے لیکن میں شر کے بارے میں پوچھا کرتا تھا۔ اس ڈر سے کہ میری زندگی میں ہی کہیں یہ شر مجھے آنہ لے۔چنانچہ میں نے پوچھا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم جاہلیت اور شر کے دور میں تھے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں اس (دین حنیف اور توحید خالص والی) خیر سے نوازا۔ تو کیا اس خیر کے بعد پھر شر کا زمانہ آئے گا؟ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں۔ (ایسا ہو گا) میں نے دریافت کیا:(اے اللہ کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم !) کیا اس شر کے بعد پھر خیر کا زمانہ آئے گا؟ فرمایا:((نَعَمْ وَفِیْہِ دَخَنٌ۔)) ہاں ! اس شر کے بعد خیر آئے گی لیکن اس میں کمزوری کا دھبہ ہو گا۔‘‘ میں نے پوچھا:یہ کمزوری کا دھبہ کیا ہو گا؟ فرمایا:((قَوْمٌ یَھْدُوْنَ بِغَیْرَ ھَدْیِيْ تَعْرِفُ مِنْھُمْ وَتُنْکِرُ)) ’’کچھ لوگ ہوں گے جو میرے طریقے کے خلاف چلیں گے۔ ان کی بعض باتیں اچھی ہوں گی لیکن بعض میں تم بُرائی دیکھو گے۔‘‘