کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 130
ہے۔‘‘(الذاریات:۵۸ آیت کریمہ پیچھے گزر چکی ہے۔)
سلفی عقیدہ و منہج پر عمل پیرا یہ اہل السنۃ والجماعۃ والے اہل الحدیث اس بات پر بھی ایمانِ کامل و یقین محکم رکھتے ہیں کہ:بلاشبہ اللہ عزوجل اپنی تمام (نوری، ناری، ترابی وغیر ترابی) مخلوق سے الگ تھلگ (تصور سے بھی باہر) بہت دُور، ساتوں آسمانوں سے اُوپر اپنے عرشِ کریم پر مستوی ہے۔[1] اوراُس نے ایک ایک چیز کا (اور ہرچیز کے ذرّے ذرے کا) اپنے علم سے احاطہ کر رکھا ہے۔[2] (کوئی بھی چیز اور مخلوق کا کوئی بھی قول
[1] اللہ عزوجل کے اپنے عرش کریم پر مستوی اور بلند ہونے والی دونوں صفاتِ اقدسہ کو ہم اللہ رب العالمین کے لیے اسی طرح حق اور ثابت مانتے ہیں جس طرح اس کی ذاتِ ذوالجلال کو لائق ہیں ۔ اور قرآنِ عظیم میں اللہ کی صفت استواء کے لیے کلمہ ’’اسْتَوٰی‘‘ کی تفسیر سلف صالحین کے نزدیک کلمات ’’اِسْتَقَرَّ ، عَلَا ، اِرْتَفَعَ اور صَعَدَ ‘‘ کے ساتھ کرتے ہیں ۔ (جن کا معنیٰ بنتا ہے کہ : اللہ ذوالجلال والاکرام نے اپنے عرش کریم پر جیسے اس کی ذاتِ اقدس کو لائق تھا … رفعت و علوت اختیار کرتے ہوئے قرار اختیار فرمایا۔) سلف صالحین صرف انہی چار کلمات کے ساتھ کلمہ ’’استوٰی‘‘ کی تفسیر کرتے ہیں ۔ نہ ہی تو ان سے تجاوز کرتے ہیں اور نہ ہی ان پر اضافہ کرتے ہیں ۔ سلف صالحین، صحابہ کرام و تابعین عظام رضی اللّٰہ عنہم و من تبعھم باحسان رحمہم اللہ جمیعاً سے اس کلمہ کی تفسیر بمعنیٰ : ’’ استولیٰ ولا ملک ولا قھر ‘‘ قطعاً مذکور اور وارد نہیں ہے۔
اور یہ کہ: اللہ عزوجل سبحانہ و تعالیٰ کے اپنے عرشِ کریم پر مستوی ہونے کی کیفیت غیر معلوم، مجہول ہے ، اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کے سوا اُسے کوئی نہیں جانتا۔ اور بمعنی:’’اِسْتَقَرَّ ، عَلَا ، اِرْتَفَعَ‘‘ اللہ تعالیٰ کی صفت ’’استوٰی‘‘ پر ایمان لانا، دلائل کے ثبوت کی بنا پر واجب ہے اور کیفیت و تمثیل کے بارے میں سوال کرنا بدعت و گمراہی ہے۔ اس لیے کہ استواء کی کیفیت اللہ رب العرش الکریم کے سوا کوئی نہیں جانتا اور یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے اس ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت بھی نہیں کیا تھا۔
[2] جیسا کہ اللہ عزوجل قرآن حکیم میں ارشاد فرماتے ہیں :
(۱)…﴿وَ مَا تَکُوْنُ فِیْ شَاْنٍ وَّ مَا تَتْلُوْا مِنْہُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّ لَاتَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا کُنَّا عَلَیْکُمْ شُھُوْدًا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْہِط وَ مَا یَعْزُبُ عَنْ رَّبِّکَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآئِ وَلَآ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِکَ وَ لَآ اَکْبَرَ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ o ﴾ (یونس:۶۱) ’’اور ـ(اے پیغمبرؐ) تو کسی حال میں ہو (کوئی کام کرتا ہو) اور قرآن میں سے کچھ بھی پڑھ کر سنائے اور (اے لوگو!) تم کوئی بھی کام کرو جب تم اس میں لگے رہتے ہو تو ہم تمہیں کو دیکھتے رہتے ہیں اور تیرے مالک سے ذرّہ برابر کوئی چیز چھپی نہیں ، نہ زمین میں نہ آسمان میں ۔ نہ ذرّہ سے کم نہ اس سے بڑی کوئی چیز ہے جو کھلی کتاب (لوح محفوظ) میں درج نہ ہو۔‘‘
(۲)… ﴿وَ ھُوَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ فِی الْاَرْضِ ط یَعْلَمُ سِرَّکُمْ وَ جَھْرَکُمْ وَ یَعْلَمُ مَا (