کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 123
بے کار یا ان میں عدم اثبات والے باطل نظریہ کو مانے بغیر۔ (کہ اس اللہ رب العرش الکریم کی تمام کی تمام صفات جاری و ساری اور ابد الا باد کے لیے ہیں۔) اور (۴)… لفظًا و معنًی ان میں تبدیلی اور تحریف[1] کے بغیر …من و عن دل و جان سے پورے یقینِ محکم اور ایمان کا مل و جازم کے ساتھ مانتے ہیں۔ اہل السنۃ والجماعۃ اہل الحدیث کا اس وضاحت اور اس عقیدہ کے لیے اُصولی قاعدہ اور دلیلِ مستحکم اللہ عزوجل کا یہ فرمان گرامی قدر ہے۔ فرمایا:
﴿فَاطِرُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَمِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجًا ۖ يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ ۚ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ
[1] تحریف…تَغْیِیْرُ النَّصِّ لَفْظًا اَوْمَعْنًی… کسی عبارت کے الفاظ کو بدل دینے یا اُس کے معانی تبدیل کر دینے کو تحریف کہتے ہیں ۔ اور یہ کہ اس نص کے ظاہری مفہوم کو ایسے معانی میں بدل دینا کہ جس پر یہ نص دلالت ہی نہ کرتی ہو مگر یہ کہ کسی مرجوح احتمال کی بنیاد پر۔ اس اعتبار سے ہر تحریف کو تعطیل تو کہا جا سکتا ہے مگر ہر تعطیل (کہ جس کا معنی اوپر متن میں (۳) والی عبارت میں واضح ہے۔) کو تحریف نہیں کہہ سکتے۔ قرآن نے یہود کے جرائم میں سے ان کا تحریف والا ایک بہت بڑا جرم یوں بھی بیان کیا ہے۔ ﴿یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اٰمَنَّا بِاَفْوَاھِھِمْ وَ لَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُھُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ لَمْ یَاْتُوْکَ یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِہٖ یَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ ھٰذَا فَخُذُوْہُ وَاِنْ لَّمْ تُؤْتُوْہُ فَاحْذَرُوْا ط وَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ فِتْنَتَہٗ فَلَنْ تَمْلِکَ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ط اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللّٰہُ اَنْ یُّطَھِّرَ قُلُوْبَھُمْ ط لَھُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ o﴾ (المائدہ:۴۱)’’اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم جو لوگ کفر پر دوڑتے پڑتے ہیں ان پر رنج نہ کرو (یہ لوگ یا تو منافق ہیں ) ان لوگوں میں سے جو منہ سے کہتے ہیں : ہم ایمان لائے اور ان کے دلوں میں ایمان (کانام تک) نہیں اور (یا) ان لوگوں میں سے جو یہودی ہیں جھوٹی باتیں سننے والے جو لوگ تیرے پاس آئے ان کے جاسوس ہیں ۔ یہ لوگ لفظوں کو اللہ تعالیٰ کے رکھے ہوئے ٹھکانے سے بے ٹھکانے کرتے ہیں (اور اپنے لوگوں سے) کہتے ہیں اگر (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف سے) تم کو یہی حکم (جو بدلا ہوا ہے) ملے تو اس کو مان لینا (یا اس پر عمل کرنا) اور جو یہ نہ ملے (بلکہ وہ بھی اس کے خلاف حکم دیں ) تو نہ ماننا۔ اللہ تعالیٰ جس کو گمراہ کرنا چاہے تو اس کے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ پر تیرا کچھ زور نہیں چل سکتا۔ یہی لوگ (دونوں قسم کے جن کا اوپر بیان ہوا) وہ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پاک کرنا انہیں چاہا۔ وہ دنیا میں ذلیل ہوں گے اور آخرت میں ان کو بڑی مار پڑے گی۔ ‘‘