کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 121
اور اللہ رب العالمین نے اپنے بندوں کو حکم دیتے ہوئے فرمایاہے : ﴿وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا﴾ (النساء:۳۶) ’’اور اللہ کی عبادت (بالکل یکسو ہو کر) کرو اور اس کے ساتھ کسی کو (عبادات میں سے کسی بھی حصے اورحالت و کیفیت میں) بھی شریک ، سانجھی حصہ دار نہ بناؤ۔ ‘‘ ۳۔ توحید الاسماء والصفات: عقیدۂ توحید خالص کے تیسرے بڑے حصہ (یا توحید کی تیسری قسم) توحید الاسماء والصفات کا معنی ہے کہ :اللہ سبحانہ و تعالیٰ ، رب العالمین پر یقین محکم اور اعتقاد جازم ہو کہ اُس باری تعالیٰ کے ان گنت ، بے شمار ایسے اسماء حسنیٰ (پیارے اور عظیم الشان اسمائے گرامی) اور ایسی (بے مثل) صفات عالیہ ہیں کہ جیسا کسی اور کانہ کوئی نام ہے اور نہ ہی ویسی کسی کی صفت۔ وہ رب کبریا ء اپنی تمام کی تمام ایسی صفات کمال سے متصف ہے کہ جو ہر طرح کے عیب اور نقص (کمی ، کوتاہی) سے پاک ہیں۔ اللہ عزوجل کی ذات ِ اقدس تمام کائنات کی سب جاندار اور بے جان مخلوقات سے بالکل منفرد ہو کر اپنی تمام صفات عالیہ سے متصف ہے۔ یعنی جیسی اُس کی صفات نقص اور عیب سے پاک کمال والی صفت سے متصف و معرف ہیں …مخلوقات میں سے ویسی کوئی بھی صفت کسی میں بھی نہیں پائی جاتی۔ اور اہل السنۃ والجماعۃ اہل الحدیث قرآن عظیم اور صحیح احادیث مبارکہ میں مذکور صفات ِ عالیہ کے ذریعے اپنے رب کریم اللہ رب العرش الکریم کی معرفت رکھتے ہیں۔ اور وہ اپنے رب کی صفات ٹھیک اُسی طرح سے بیان کرتے ہیں جس طرح اللہ رب العالمین نے اپنی کوئی صفت خود بیان فرمائی ہو۔ یا جس طرح نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ عزوجل کی کوئی صفت بیان کی ہو۔ یہ اہل السنۃ والجماعۃ اہل الحدیث سلفی لوگ اللہ عزوجل کے اسماء و صفات کے الفاظ کو ان کی جگہ سے (یہود و نصاریٰ کی طرح) [1] بدلا نہیں کرتے (اور نہ ہی ان کے معانی
[1] جیسا کہ قرآن مجید نے یہود و نصاریٰ کا یہ بطلان بیان کیا ہے۔ فرمایا: ﴿مِنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعَہٖ وَ یَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَاوَ عَصَیْنَا وَاسْمَعْ غَیْرَ مُسْمعٍ وَّ رَاعِنَا لَیًّا بِاَلْسِنَتِھِمْ وَ طَعْنًا فِی الدِّیْنِ وَ لَوْ اَنَّھُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَ انْظُرْنَا لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ وَ اَقْوَمَ وَ لٰکِنْ لَّعَنَھُمْ اللّٰہُ بِکُفْرِھِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًاo﴾ (النساء:۴۶) ’’ـ (یہ دشمن تمہارے) یہودیوں میں سے (یا یہودیوں میں )بعضے ایسے بھی ہیں جو لفظوں کو اپنے مقاموں سے پلٹ دیتے ہیں اور زبانوں کو مروڑتے ہوئے دین پر طعنہ کرنے کو کہتے ہیں : ہم نے سنا اور نہ مانا۔ اور سنو تم کو کوئی نہ سنائے اور ’’راعنا‘‘ (ہماری رعایت کر، ہماری طرف توجہ فرمائیں ) کے لفظ کو (اپنے زبانوں سے پیچ دے کر ’’راعینا‘‘‘… اور ہمارے چرواہے‘‘ کہہ کر ادا کرتے ہیں ۔) اور اگر وہ (ان لفظوں کے بدل) یوں کہتے ہم نے سنا اور مان لیا اور سنو ، ہماری طرف نظر فرمائیں (راعنا کے بدل) کہتے تو یہ ان کے حق میں بہتر اور درست ہوتا مگر ان پر تو کفر کی وجہ سے اللہ نے پھٹکار کر دی ہے۔ اور وہ ایمان نہیں لانے کے مگر تھوڑا سا۔ (اپنے مطلب کا۔)‘‘ ﴿فَبِمَا نَقْضِھِمْ مِّیْثَاقَھُمْ لَعَنّٰھُمْ وَ جَعَلْنَا قُلُوْبَھُمْ قٰسِیَۃً یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعَہٖ وَ نَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوْا بِہٖ وَ لَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰی خَآئِنَۃٍ مِّنْھُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْھُمْ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَ اصْفَحْط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْن o ﴾ (المائدہ:۱۳)’’پھر ان لوگوں نے جو اپنا اقرار توڑا تو اسی وجہ سے ہم نے ان کو پھٹکار دیا اور ان کے دل سخت کر دیے۔ وہ (توریت شریف کے) لفظوں کو اپنے اپنے ٹھکانے سے بدل دیتے ہیں اور جو نصیحت ان کو کی گئی تھی اس میں سے ایک حصہ بھلا بیٹھے اور چند آدمیوں کے سوا ہمیشہ ایک نہ ایک ان کی چوری تجھ کو معلوم ہوتی رہے گی۔ ان کا قصور فی الحال معاف رکھ اور ان سے درگزر کر۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نیکوں سے محبت رکھتا ہے (جو قصور معاف کر دیتے ہیں ) ‘‘