کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 106
معاملے میں وحدانیت اور عبادت کے لیے صرف اُسی کے ہی حقدار ہونے پر یقین محکم و ایمانِ راسخ کامکمل مفہوم پایا جانا ایمان باللہ ہے۔ اس لیے کہ اُس کی ذات اقدس میں کسی قسم کا شک نہیں ہے۔ (بصورت شک و شبہ ایمان نہیں ایک طرح کا کفر ہے۔) اور اللہ عزوجل کی ذات اقدس کے اپنے عرش عظیم پر مستوی ہوتے ہوئے تمام کائنات کے سب جہانوں کے ایک ایک فرد کے ہر ہر حصے اور ذرّے ذرّے کا علم رکھنا ، ہر ہر چیز پر مکمل قدرت رکھنا اور تمام جہانوں کے تمام اُمور کی مکمل و غیر ناقص تدبیر کرنا :فطرت ، عقل ، شریعت اور محسوسات کے ذریعے پوری طرح ادراک و علم میں آتی ہے۔ اللہ عزوجل کی ذات و صفات عالیہ اور حاکمیت ارض و سما ء و مابینھما میں اُس کی وحدانیت ، شعور اور غیر شعور والی تمام مخلوقات سے سرزد تمام قسم کی عبادات میں اُسی کی اُلوہیت اور اُ س جیسے اسماء حسنیٰ و صفات عظمیٰ میں کسی اور کے شریک و معاون نہ ہونے پر یقین محکم و ایمان جازم بھی ایمان باللہ العزیز الحکیم ہے۔ اور یہ ایمان باللہ کی تکمیل توحید خالص کی تینوں اقسام کے اقرار ، ان پر مکمل عقیدہ رکھنے اور ان کا علم حاصل کرنے سے ہوتی ہے۔ اور یہ اقسام درج ذیل ہیں : ۱۔ توحید ربوبیت ۲۔ توحید اُلوہیت ۳۔ توحید الاسماء والصفات آئیے اب ہم ان تینوں اقسام کا اختصار سے مفہوم سمجھتے ہیں۔ [1]
[1] یہاں نہایت اہم تین باتوں کا جاننا اور سمجھنا ضروری ہے۔ ۱… دین حنیف کے کسی مسئلہ کو سمجھنے سمجھانے اور اسے وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کے لیے لوگوں کی علمی استعداد کے مطابق مثالیں دے کر اس شرط کے ساتھ بیان کرنا کہ اس وضاحت و بیان کا تعارض قرآن و سنت کی کسی بھی اصل سے نہ ہو ، جائز اور مباح ہے۔ غالبًا اسی کا نام ’’تفقہ فی الدین ‘‘ ہے کہ جس کی فضیلت حدیث صحیح میں یوں مذکور ہے : سیدنا معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ بِہٖ خَیْرًا یُفَقِّہُ فِی الدِّیْنِ))…الخ… اللہ عزوجل جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمائیں اسے تفقہ فی الدین … دین میں غور و فکر کرنے اور سمجھنے سمجھانے کی نعمت …عطا فرمادیتے ہیں ۔‘‘ (دیکھیے : صحیح البخاری؍ کتاب الایمان ؍باب ۱۳ ؍ حدیث۷۱) قرآن میں اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی قدر ہے : ﴿فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْا اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ o﴾ (التوبہ:۱۲۲) یہ ایمان والے مسلمان ایسا کیوں نہیں کرتے کہ : ہر قبیلے میں سے کچھ لوگ نکلیں تاکہ وہ دین کی سمجھ ، علم حاصل کریں (قرآن و حدیث کو یاد کرکے مسائل کا استنباط سیکھیں ) اور جب ان کی قوم کے لوگ (جہاد سے) لوٹ کر آئیں تو ان کو اس علم سے خبردار کریں اور انھیں اللہ کی پکڑ سے ڈرائیں تاکہ وہ حلال حرام اور اللہ کے عذاب سے بچ سکیں ۔ ‘‘