کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 53
’’الْحَیُّ ‘‘یعنی وہ کمالِ حیات کی صفت سے متصف ہے، اس کیلئے ازل سے ابد تک دوام وبقاء ہے ،اس پر کسی صورت فناء طاری نہیں ہوگا۔ ’’الْقَیُّوْمُ ‘‘یعنی وہ ایسی ذات ہے جو قائم بنفسہ ہے ،اور تمام مخلوقات کو قائم رکھے ہوئے اور سنبھالا دیئے ہو ئے ہے ،چنانچہ وہ اپنی خلق سے بے نیاز ہے ،البتہ پوری خلق ہر لحظہ اس کی محتاج ہے ۔ بعض احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ’’ الْحَیُّ القیوم ‘‘اللہ تعالیٰ کا وہ اسمِ اعظم ہے کہ جب بھی اس کے واسطے ووسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعامانگی جائے گی ،اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا ،اور جب بھی سوال کیا جائے گا عطا فرمائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صفت ’’الْحَیُّ ‘‘تمام صفاتِ ذاتیہ پر دال ہے ،جبکہ صفت ’’القیوم‘‘ تمام صفتِ فعلیہ کی مظہر ہے ،گویا اللہ تعالیٰ کی تمام صفاتِ انہی دو عظیم الشان اور بابرکت ناموں پر دائر وراجع ہیں ۔ ’’لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَانَوْمٌ ‘‘اللہ تعالیٰ کی کمالِ قیومیت اس امر کی متقاضی ہے کہ اسے نہ تو نیند آتی ہے اور نہ اُونگھ ۔ واضح ہو کہ ’’ سِنَۃٌ ‘‘ہلکی نیند کو کہتے ہیں جو صرف آنکھوں میں ہوتی ہے ’’ السِنَۃ‘‘ کا مترادف ’’ النعاس‘‘ ہے۔ جبکہ’’النوم‘‘سے مراد گہری نیند ، یہ اونگھ سے اقویٰ ہوتی ہے،اور یہ دل کے اندر ہوتی ہے ،نیند کوموت کا بھائی کہا جاتا ہے۔ ’’لَہٗ مَافِی السَّمٰوَاتِ وَمَافِی الْاَرْضِ ‘‘یعنی آسمانوں اور زمینوں کی ہر چیز کا مالک بھی اللہ تعالیٰ ہے اور خالق بھی ،ہر چیز اس کی غلام ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ عالم علوی وسفلی دونوں کا تنہا مالک وخالق ہے ۔ ’’ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ إِلَّا بِإِذْنِہٖ‘‘یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس ،اس کے امر واذن کے