کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 41
’’ الْعِزَّۃِ ‘‘ قوت اور غلبہ واقتدار کے معنی میں ہے، رب کی العزۃ کی طرف اضافت از قبیل اضافۃ الموصوف الی الصفۃ ہے ۔ ’’ یَصِفُوْنَ‘‘ سے مراد نقص وعیب کی وہ تمام صفات جو مخالفین رسل نے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیں، اور جو ہرگز اللہ تعالیٰ کے لائقِ شان نہیں۔ ’’ وَسَلَامٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ‘‘ مرسلین ،رسل کی جمع ہے،مراد اللہ تعالیٰ کے وہ نمائندے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی طرف مبعوث فرمایا، اور جنہوں نے اپنے پروردگار کے تمام پیغامات اس کے بندوں تک پہنچا دیئے۔ مرسلین پر سلام کے دو معنی ہیں: یا تو سلام بمعنی تحیۃ وتحفہ ہے،یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر مقام پر ہر قسم کے شر اور مکروہ سے سلامتی عطا فرمانے کی نوید ہے۔ ’’الْعَالَمِیْنَ ‘‘ عالم کی جمع ہے، اس سے مراد ماسوی اللہ ہر چیز ہے ،ان آیاتِ کریمہ کا اجمالی معنی مؤلف رحمہ اللہ نے خود بیان فرمادیاہے یعنی :انبیاء ِکرام کے اعداء ومخالفین نے اپنے کفر وعناد کو بروئے کار لاتے ہوئے سبحانہ وتعالیٰ کی ذات کی طرف مختلف صفات ِنقص منسوب کیں، اللہ تعالیٰ نے ان تمام نقائص سے اپنی پاکیزگی کا اعلان فرمایا،پھر اپنے انبیاء ومرسلین کو بڑی شاباش دی، تحیہ وسلام سے نوازا ،ہر مکر وشر سے محفوظ رکھنے کی بشارت دی کہ ان نفوسِ قدسیہ نے ان معاندین ومنکرین کے درمیان انتہائی صبر واستقامت سے زندگی بسر کی،اور پوری جرأت وشجاعت کے ساتھ پروردگار کی تسبیح وتنزیہ کرتے رہے ،اور معاندین کے کفر والحاد سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ان آیاتِ کریمہ سے درج ذیل فوائد حاصل ہورہے ہیں: (۱) گمراہوں اور جاہلوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف صفات نقص منسوب کی ہیں جو ہرگز اللہ تعالیٰ کے لائقِ شان نہیں ،ان تمام صفات سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ وتسبیح۔