کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 352
عبارت کی تشریح ’’مکارم الاخلاق‘‘اچھے اخلاق کو کہتے ہیں ۔’’الاخلاق‘‘ ’’خلق‘‘ کی جمع ہے ’’خُلُق‘‘ (خاء کے ضمہ اور لام کے سکون کے ساتھ ) کا معنی ہے ’’باطنی صورت‘‘ اور ’’خَلق‘‘(خاء کے فتحہ اور لام کے سکون کے ساتھ) کا معنی ’’ظاہری صورت‘‘۔یہاں پر ’’خلق‘‘بمعنی دین، عادت اور طبیعت ہے یعنی ا ہل السنۃ اعلیٰ اخلاق کا اہتمام کرتے ہیں چنانچہ اولاً اپنے آپ کو اعلیٰ اخلاق سے آراستہ کرتے ہیں اور دوسروں کو اس کی طرف ترغیب دیتے ہیں۔اسی طرح لوگوں کو محاسن اعمال کی طرف بھی دعوت دیتے ہیں، جیسے سخاوت، شجاعت، صدق اور امانت وغیرہ۔ [أکمل المؤمنین إیمانا أحسنھم خلقا]( کامل الایمان مؤمن وہ ہے جس کااخلاق اچھا ہے) مندرجہ بالا حدیثِ نبوی پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے مقتضیٰ پر عمل کرتے ہیں۔ (اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے ،امام ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے) اس حدیث میں اچھے اخلاق سے آراستہ ہونے کی ترغیب دی گئی ہے ،اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہورہا ہے اعمال مسمی الایمان میں داخل ہیں اور یہ کہ ایمان میں تفاضل ہوتا ہے (یعنی بعض کا ایمان بعض سے کم ہوتاہے) اہل السنۃ لوگوں کو آپس میں حسنِ معاملہ اور اصحاب الحقوق کے حقوق کی ادائیگی کی دعوت دیتے ہیں ،اور اعلیٰ اخلاق کے منافی امور مثلاً:لوگوں پر تکبر کرنا اور ان پر تعدی کرنا وغیرہ سے ڈراتے ہیں، چنانچہ اہل السنۃ کی دعوت ہے کہ اگر کوئی آپ سے قطع رحمی کرے تو آپ اس سے صلہ رحمی کریں ،یعنی اگر کوئی آپ سے بُرا سلوک کرے تو اس سے اچھا سلوک کرنا اور یہ کہ اگر کوئی آپ کو محروم کرے تو آپ اسے عطاء کریں ،یعنی اگر کوئی آپ سے تحائف وغیرہ روک لیتا ہے تو آپ ایسا نہ کریں بلکہ آپ اس پر تحائف وغیرہ کی صورت میں خرچ کریں، حسنِ سلوک کایہی تقاضا ہے۔ اور یہ کہ جو آپ پر ظلم کرے آپ اسے معاف کریں ،یعنی آپ کے ساتھ ،مال،خون اور عزت