کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 35
میں فرمایا:{ فَلَا تَجْعَلُوا ِﷲِأَنْدَادًا } ’’ خبردار باوجود جاننے کے اللہ تعالیٰ کے شریک مقرر نہ کرو‘‘ ’’ولا یقاس بخلقہ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کو مخلوق کے ساتھ قیاس نہ کیا جائے قیاس کرنے سے مراد مثل بنانا ہے،یعنی اللہ تعالیٰ کو مخلوقات کے مثل اور مشابہ نہ بنایا جا ئے ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: { فَلَا تَضْرِبُوا ِاللّٰه الْاَمْثَالَ } (النحل:۷۴) ترجمہ:’’اللہ کیلئے مثالیں بیان نہ کرو‘‘ لہذا اللہ تعالیٰ کو مخلوقات میں سے کسی پر قیاس نہ کیا جائے نہ اس کی ذات میں،نہ اسماء وصفات میں اور نہ ہی اس کے افعال میں اور وہ اللہ جو خالق ہے اور ہر طرح کے کمال سے متصف ہے اسے بھلا ان لوگوں کے ساتھ کیسے قیاس کرسکتے ہیں جو اس کی مخلوق ہیں اور صفاتِ نقص سے متصف ہیں ؟ اللہ تعالیٰ قیاس وتمثیل سے انتہائی بلندہے۔ مصنف کا قول’’ فانہ سبحانہ أعلم بنفسہ وبغیرہ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی ذات کو اور دوسروں کو سب سے بہتر جانتا ہے پیچھے بیان کردہ ایک حکم کی تعلیل ہے ،وہ حکم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کیلئے جو صفات بیان فرمائی ہیں ان پر ایمان لانا واجب ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کو مخلوق کی صفت سے قیاس نہیں کرسکتے؛اس کی علت یہ ہے کہ یہ خبرچونکہ اللہ تعالیٰ نے دی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی ذات وصفات کو نیز اپنی مخلوقات کی صفات کو سب سے بہتر جاننے والا ہے، لہذا ہم اللہ تعالیٰ کی ان خبروں کوتسلیم کرلیں اور جو صفات اس نے اور اس کے رسول نے بیان فرمادی ہیں ان پر ایمان لے آئیں۔ اور پھر یہ خلق اپنے علم سے اللہ تعالیٰ کا احاطہ کرنے سے قطعی قاصر ہے اور اللہ تعالیٰ ان صفاتِ کمال سے متصف ہے جن تک مخلوقات کی عقل کو کوئی رسائی حاصل نہیں تو پھر ضروری ہوا کہ ہم اسی