کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 340
[علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین من بعدی ۔ تمسکوا بھا وعضوا علیھا بالنواجذ ۔ وإیاکم ومحدثات الأمور ؛ فإن کل بدعۃ ضلالۃ] ترجمہ:[ تم میری سنت اور میرے بعد خلفاء راشدین جو کہ ہدایت پر ہیں کی سنت کی پیروی کو لازم کرلو، اسے مضبوطی سے پکڑلو اور اسے اپنی داڑھوں میں دبالو اور اپنے آپ کو نئے نئے امور سے بچاؤ کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے] (احمد، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے) اس صفت کے ذکر سے شیخ رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ اہل السنۃ بالعموم سابقین اولین مہاجرین وانصار کے طریقہ کی پیروی کرتے ہیں البتہ بالخصوص وہ خلفائے راشدین کے طریقہ کی پیروی کرتے ہیں کیونکہ اس حدیث میں خلفائے راشدین کے طریقہ کی پیروی کرنے کی خصوصی وصیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے موجود ہے اور اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلفائے راشدین کی سنت کو اپنی سنت سے ملادیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ خلفائے راشدین کی یا ان میں سے کسی ایک کی سنت سے عدول کرنا کسی طورپر جائز نہیںہے۔ خلفائے راشدین سے مراد خلفائے اربعہ ابوبکر ،عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم ہیں ۔ ’’راشد‘‘ وہ شخص ہوتا ہے جو حق کو جان لے اور اس پر عمل کرے ،اس کی ضد ’’الغاوی‘‘ ہے یہ وہ شخص ہے جو حق کو جان لے لیکن اس پر عمل نہ کرے۔’’المھدیین‘‘ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے حق کی طرف ہدایت فرمائی ہو یعنی ہدایت یافتہ لوگ۔ ’’تمسکوا‘‘ ای ’’الزموھا‘ یعنی لازم پکڑ لو۔ ’’عضوا علیھا بالنواجذ ‘‘ ’’النواجذ‘ آخری ڈارھ کو کہا جاتا ہے یعنی سنت پر اپنی داڑھیں گاڑھ لو یہ سنت کو انتہائی مضبوطی سے پکڑنے سے کنایہ ہے ’’محدثات الأمور‘‘ نئے نئے کام ہیں بدعتیں۔