کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 329
(۳) البتہ بعض آثار صحیح ہیں ،ایسی لغزشوں کے متعلق اہل السنۃ انہیں معذور سمجھتے ہیں کیونکہ یہ اجتہادی غلطیاں ہیں اور مجتہد مصیب (حق پر) ہوسکتا ہے اور مخطیٔ (غلطی پر) بھی اور مجتہد اگر حق کو پالے تو اس کیلئے دہرا اجر ہے اور اگر غلطی پر بیٹھے تو اس کیلئے ایک اجر ہے چنانچہ صحیحین میں ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ اور عمر وبن العاص رضی اللہ عنھما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ اذا اجتہد الحاکم فاصاب فلہ اجران ،وان اجتہد وأخطأ فلہ اجر واحد ] ترجمہ:[ جب حاکم اجتہاد کرے اور حق بات تک پہنچ جائے تو اس کیلئے دو اجر ہیں اور اگر حق بات سے خطأ کربیٹھے تو اس کیلئے ایک اجر ہے] (۴) یہ بشر ہیں جس طرح عام بشر سے خطأ کا امکان ہے اسی طرح ان میںسے بھی کسی سے خطأ کا امکان موجود ہے، اسی لئے اہل السنۃ کا یہ اعتقاد نہیں کہ ہر ایک صحابی کبیرہ اور صغیرہ گناہوں سے معصوم ہے،بلکہ من حیث العموم ان سے بھی گناہوں کے صادر ہونے کا امکان ہے لیکن ان سے جو بھی خطأ صادر ہوئی ہے اس کیلئے مکفرات بھی موجود ہیں مثلاً: ’’الف‘‘ : ان کے پاس سبقت الی الاسلام اور دیگر ایسے فضائل ہیں کہ اگر ان سے گناہوں کا صدور ہو بھی جائے تو ان گناہوں کی بخشش کا موجب بن جائیں گے۔چنانچہ ان کی ایسی بڑی بڑی نیکیاں ہیں کہ ان کی و جہ سے ان کی لغزشیں اور خطائیں معاف ہوجاتی ہیں جیسا کہ حاطب بن ابی بلتعہ کے قصہ سے یہ بات واضح ہے کہ غزوہ فتح مکہ کے معاملے میں ان سے غلطی ہوئی (انہوں نے کفار کو مسلمانوں کے جنگی پلان سے آگاہ کرنے کی کوشش کی تھی) تو ان کی یہ غلطی ان کی جنگ ِ بدر میں شرکت کی وجہ سے معاف کردی گئی۔بلکہ ان کے تو ایسے گناہ بھی معاف ہوسکتے ہیں کہ جو اگر دوسروں نے کیئے ہوں تو معاف نہ ہوں کیونکہ ان کے پاس گناہوں کو مٹانے والی ایسی نیکیاں ہیں جو بعد میں آنیوالوں میں سے کسی کے پاس نہیں ہیں، جیسا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: { اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَاتِ } (ھود:۱۱۴)