کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 308
صحابہ کومکہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا، جیسا کہ پیچھے گذر چکا ہے۔ شیخ رحمہ اللہ نے اپنے ا س کلام میں اہل بیعتِ رضوان کی دو فضیلتیں بیان فرمائی ہیں: الاولیٰ: پہلی فضیلت یہ کہ ان میں سے کوئی بھی جہنم میں داخل نہیں ہوگا، اس کی دلیل صحیح مسلم میں جابر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ: [ ان النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم قال لایدخل النار احد بایع تحت الشجرۃ ] ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [درخت کے نیچے بیعت کرنیوالوں میں سے کوئی ایک بھی جہنم میں داخل نہیں ہوگا] الثانیۃ: دوسری فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوچکا ہے، یہ بات تو قرآن میں صراحتاً مذکور ہے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: { لَقَدْ رَضِیَ اللّٰه عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ } (الفتح:۱۸) ترجمہ:’’یقینا اللہ تعالیٰ مؤمنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت کے تلے تجھ سے بیعت کررہے تھے‘‘ شیخ رحمہ اللہ نے بیعتِ رضوان میں شریک صحابہ کی تعداد بالیقین ذکر کرنے کی بجائے ’’أکثر من ألف وأربعمائۃ‘‘(چودہ سو )سے زائد کے ا لفاظ کے ساتھ ذکر کی ہے ؛کیونکہ ان کی تعداد کے متعلق یہی بات ہی صحیح ہے (یعنی ان کی تعداد کا تعین صحت کیساتھ ثابت نہیں) شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ویشھدون بالجنۃ لمن شھد لہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم کالعشرۃ وثابت بن قیس بن شماس وغیرھم من الصحابۃ‘‘ ’’ اہل السنۃوالجماعۃ ان صحابہ کے جنتی ہونے کی شہادت دیتے ہیں جن کا نام لیکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنتی ہونے کی شہادت دی ،جیسا کہ عشرہ مبشرہ اور ثابت بن قیس وغیرہ ہیں۔‘‘ یعنی اہل السنۃ ان صحابہ کے متعلق جنتی ہونے کی شہادت دیتے ہیں جن کے متعلق رسول اللہ