کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 307
امام ابن القیم رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق اپنی کتاب’’الفوائد‘‘ میں فرماتے ہیں۔ ’’ اس حدیث کے معنی نے بہت سے لوگوں کواشکال میں ڈال دیا ہے ،چنانچہ اس حدیث کے معنی کے متعلق اقوال کے ذکر کے بعد ابن القیم فرماتے ہیں: ’’اس معاملہ میں ہماری رائے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ خطاب ایک ایسی قوم سے ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ یہ دین پر قائم رہیں گے اور اسلام پر ہی ان کا خاتمہ ہوگا اور یہ کہ عام لوگوں کی طرح اگر ان سے گناہ سرزد ہوئے تو اللہ تعالیٰ انہیں گناہ پر مصر نہیں رہنے دے گا بلکہ انہیں استغفار اور توبۃ النصوح کی توفیق دے گا اور ایسے اعمال صالحہ کی توفیق دے گا جو ان گناہوں کا کفارہ بن جائیں گے اور یہ صرف انہی کی خصوصیت ہے کیونکہ ان کے متعلق یہ بات محقق ہے اور یہ بخشے ہوئے ہیں۔‘‘ اس حدیث سے مغفرت کے دیگر اسباب کے حصوں کی ممانعت نہیں ہورہی ہے، جس طرح کہ اس حدیث کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ یہ لوگ مغفرت پر اعتماد کرتے ہوئے فرائض کو چھوڑ دیں، کیونکہ اگر اوامر کے بجالائے بغیر انہیں مغفرت حاصل ہوتی تو اس اعلان کے بعد یہ لوگ نماز ، حج، زکوٰۃ اور جہاد وغیرہ کے بجالانے کے محتاج نہ ہوتے ‘‘ شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ وبأنہ لایدخل النار أحد بایع تحت الشجرۃ کما اخبر النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم بل قد رضی اللّٰه عنھم ورضوا عنہ وکانوا أکثر من ألف وأربعمائۃ‘‘ ’’اور یہ کہ بیت رضوان میں شریک صحابہ جو ۱۴۰۰ سو سے زائد تھے میں سے کو ئی بھی جہنم میں نہ جائے گا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق یہ بشارت دی ہے ،بلکہ اللہ تعالیٰ ان سے اور یہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوچکے ہیں ۔‘‘ شیخ رحمہ اللہ اپنے اس کلام میں بیعت الرضوان میں شریک صحابہ کی شان بیان کرنا چاہتے ہیں۔ بیعتِ رضوان کا واقعہ حدیبیہ کے مقام پر ہوا تھا، جہاں پر مشرکین نے رسول اللہ اور آپ کے