کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 304
ترجمہ’’ہم نے آپ کو فتح بین عطافرمائی ہے‘‘ اوراہل علم میں یہی بات مشہور ہے کہ اس آیت میں فتح بین سے مراد صلح حدیبیہ ہے،کیونکہ سورئہ الفتح صلح حدیبیہ کے فوراً بعد نازل ہوئی ہے۔ ’’حدیبیہ‘‘ مکہ کے قریب ایک کنواں ہے ، یہیں پر ایک درخت کے نیچے بیعت الرضوان کا واقعہ پیش آیاتھا ،جب مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو دخولِ مکہ سے روک دیا تھا تو صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر موت کی بیعت کی تھی ،اس بیعت کو فتح سے تعبیر اس لئے کیا گیا ہے کہ اس بیعت کے سبب سے مسلمانوں کو خیر اور نصرت حاصل ہو ئی۔ صلح حدیبیہ سے قبل خرچ کرنیوالوں کی فضیلت کی دلیل یہ آیتِ کریمہ ہے: { لَایَسْتَوِی مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولٰئِکَ أَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا } (الحدید:۱۰) ترجمہ:’’تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ خرچ کیا ہے اور قتال کیا ہے وہ (دوسروں کے) برابر نہیں،بلکہ ان سے بہت بڑے درجے کے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے ‘‘ یہ مہاجرین وانصار صحابہ تھے ا نہیں ’’السابقون الاولون‘‘ کہا جاتا ہے (یعنی اسلام کی طرف سبقت لیجانے والے) انہیں کے متعلق اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: { وَالسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھَاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالََّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِیَ اللّٰه عَنْھُمْ وَرَضُوا عَنْہُ } (التوبۃ:۱۰۰) ترجمہـ:’’اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیروہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے‘‘ شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ ویقدمون المھاجرین علی الانصار ‘‘ یعنی ’’اہل السنۃ