کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 290
الی قولہ : {اِنَّمَا الْمُوْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَأَصْلِحُوا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ } (الحجرات: ۹تا۱۰) ترجمہ:’’ اور اگر مسلمانوں کی دوجماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرادیا کرو۔ پھر اگر ان دونوں میں سے ایک دوسری( جماعت) پر زیادتی کرے تو تم (سب ) اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو۔یہاںتک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے ،اگر لوٹ آئے تو انصاف کے ساتھ صلح کرادواور عدل کرو بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔یاد رکھو سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں پس اپنے دو بھائیوں میں ملاپ کرادیا کرو‘‘ اس آیت سے وجہ استدلال یہ ہے کہ آپس میں قتال اور بغی کے باوجود دونوں گروہوں کو مؤمنین کہا گیا ہے اور ’’فاصلحوا بین اخویکم‘‘ میں دونوں گروہوں کو اہل ایمان کا بھائی قرار دیاگیا ہے۔ مذکورہ آیت کریمہ کا اجمالی معنی یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے دوگروہ آپس میں لڑ پڑیں تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان میں صلح کرائیں اور ا نہیں اللہ کے حکم کی طرف دعوت دیں، اگر ایک فریق دوسرے پر تعدی کرتا ہے اور صلح قبول نہیں کرتا ، تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس باغی گروہ سے قتال کریں تاآنکہ وہ اللہ کے حکم وامر کی طرف آجائے ،اگر باغی گروہ اپنی بغاوت سے رجوع کرلے اور کتاب اللہ سے فیصلہ کرانے پر آمادہ ہوجائے تو پھر مسلما نوں پر لازم ہے کہ وہ ان دونوں گروہو ں میں عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ کریں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مطلق اپنے تمام امور میں عدل وانصاف کرنے کاحکم ارشاد فرمایاہے ،چنانچہ فرمایا: { وَأَقْسِطُوْا اِنَّ اللّٰه یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ } (الحجرات:۹) ’’اور عدل کرو،بے شک اللہ تعالیٰ عدل کرنیوالوں سے محبت کرتا ہے‘‘ آیت مذکورہ میں جملہ ’’انما المؤمنون اخوۃ‘‘ (اہل ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں) پہلی بات