کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 289
نیز اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان: { لِیَزْدَادُوْا إِ یْماَ نًامَعَ إِیْمَانِھِمْ } (الفتح:۴) ترجمہ:’’ تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ ہی ساتھ اور بھی ایمان میںبڑھ جائیں‘‘ شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :’’اہل السنۃ اس عقیدے کے باوجود اہل قبلہ کی معاصی اور کبائر کے ارتکاب کی بنا پر تکفیر نہیں کرتے جیسا کہ خوارج کرتے ہیں‘‘ یعنی ا ہل السنۃ والجماعۃ اپنے اس عقیدے کہ اعمال حقیقت ایمان میں داخل ہیں اور یہ کہ ایمان اطاعت سے بڑھتا اور معصیت سے کم ہوتا ہے کے باوجود ،مدعی اسلام اور کعبۃ اللہ کی طرف نماز میں رُخ کرنیوالے پر شرک وکفر کے علاوہ مطلق ارتکاب معاصی کی بنا پر کفر کا حکم نہیں لگاتے ،جیسا کہ خوارج کرتے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ مرتکبِ کبیرہ دنیا میں کافر ہے اور آخرت میں ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور کبھی اس سے نہیں نکلے گا۔ جبکہ اہل السنۃ والجامعۃ اخوت ایمانیۃ کو ارتکاب معاصی کے باوجود ثابت مانتے ہیں یعنی عاصی (گناہگار) ایما ن میں ہمارابھائی ہے ۔اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: { فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ أَخِیْہِ شَیْئٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ } (البقرۃ:۱۷۸) ترجمہ’’جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے معافی دے دی جائے اسے بھلائی کی اتباع کرنی چاہیئے‘‘ اگر مجرم کو مظلوم یا اس کا ولی قصاص معاف کردے اور دیت لینے پر آمادہ ہوجائے تو مستحق مال پر لازم ہے کہ دیت کی طلب میں سختی نہ کرے اور مجرم پر لاز م ہے کہ وہ دیت دینے میں ٹال مٹول سے کام نہ لے ۔ اس آیت سے وجہ استدلال یہ ہے کہ باوجودیکہ قتل ایک کبیرہ گناہ ہے پھر بھی قاتل کو مقتول کا بھائی کہا گیا ہے یعنی قتل جیسے گناہ کے ارتکاب کے باوجود اخوتِ ایمانی ختم نہیں ہوتی۔ دوسری دلیل: { وَاِنْ طَا ئِفَتَانِ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَیْنَھُمَا…}