کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 288
(۲) مرجئہ کے نزدیک : ایمان، صرف دل کے اعتقاد اور زبان کے اقرار کا نام ہے۔ (۳) کرا میۃ کے نزدیک: ایمان ،زبان سے اقرار کرنے کا نام ہے۔ (۴) الجبریۃ کے نزدیک: ایمان، قلب سے اعتراف کرنے یا محض قلب کی معرفت کا نام ہے (۵) المعتزلۃ کے نزدیک: ایمان، قلب کے اعتقاد ،زبان کے نطق اور اعضاء کے عمل کا نام ہے۔ معتزلہ اور اہل السنۃ والجماعۃ کے درمیان فرق یہ ہے کہ معتزلہ مرتکبِ کبیرہ سے اسم الایمان بالکلیۃ سلب کرتے ہیں اور اسے مخلد فی النار سمجھتے ہیں جبکہ اہل ا لسنۃ والجماعۃ مرتکبِ کبیرہ سے اسم الایمان بالکلیۃ سلب نہیں کرتے بلکہ اسے مؤمن ناقص الایمان کہتے ہیں اور اگر وہ جہنم میں داخل بھی ہوجائے تو اسے مخلد فی النار نہیں سمجھتے۔ادلہ کثیرہ کی روشنی میں اس مسئلہ میں اہل السنۃ کا قول حق ہے اور باقی تمام اقوال باطل ہیں۔ شیخ ر حمہ اللہ فرماتے ہیں: اہل السنۃ والجماعۃ کے اصول میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ’’ ایمان اطاعت سے بڑھتا ہے اور معصیت سے کم ہوتا ہے‘‘ یعنی اہل السنۃ والجماعۃ کے اصول میں یہ بات بھی ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، اطاعت سے ایمان بڑھتا ہے اور معصیت سے اس میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اس بات کے بہت سے دلائل ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: { اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰه وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ آیَاتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا } (الانفال:۲) ترجمہ’’بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کردیتی ہیں‘‘