کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 270
’’ إِنَّ ذِٰلکَ علَیَ اللّٰه یَسِیْرٌ ‘‘’’یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ پر آسان ہے‘‘یعنی اللہ کے علم کا آسمان اور زمین کی ہر چیز کا احاطہ کرنا اور پھر اسے کتابت فرمانا اس پر آسان ہے۔ شا ہدآیت: آیتِ کریمہ میںہرچیز کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کے علم اور لوحِ محفوظ میں اس کے مکتوب ہونے کا اثبات ہے اور درجہ اولیٰ انہی مراتب کو متضمن ہے۔ دوسری آیت:{ مَاأَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَافِیْ أَنْفُسِکُمْ اِلاَّفِیْ کِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ أَنْ نَّبْرَأَھَا إِنَّ ذٰ ِلکَ علَیَ اللّٰه یَسِیْرٌ } (الحدید:۲۲) ترجمہ:’’ نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے نہ (خاص)تمہاری جانوں میں،مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے اللہ تعالیٰ پر تو یہ امر بالکل آسان ہے ‘‘ یعنی زمین میں جو مصیبت نازل ہوتی ہے مثلاً قحط ،بارش ، نباتات میں ضعف اور پھلوں کی کمی وغیرہ یا جومصیبت انسانوں میں نازل ہوتی ہے مثلاً: تکالیف،امراض اور تنگیٔ عیش وغیرہ یہ سب کچھ تخلیق وایجاد سے پہلے لوحِ محفوظ میں مکتوب ہے اور اتنے کثیر امور کا پہلے سے لوحِ محفوظ میں لکھ لینا اللہ تعالیٰ کیلئے بالکل سہل وآسان ہے ۔ شاہدآیت:یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ تمام حوادث وقوع سے قبل ہی لوحِ محفوظ میںلکھے ہوئے ہیں ،اور اللہ تعالیٰ کاان حوادث کو وقوع سے پہلے لکھ لینا،اس کے وقوع سے پہلے علم کو متضمن ہے، اس لحاظ سے یہ آیت بھی مرتبۂ علم وکتابت کی ز بردست دلیل ہے۔ اسکے بعد شیخ ر حمہ اللہ نے تقدیر کی دونوع کی طرف اشارہ فرمایا ہے،تقدیر عام اور تقدیر خاص ۔ تقدیر عام: یہ کائنات کی ہرچیز کو شامل ہے ،اور یہی تقدیر لوحِ محفوظ میں مکتوب ہے، اس نوع پر مفصل بحث مع ادلہ گذرچکی ہے۔ تقدیر خاص: تقدیر کی یہ نوع درحقیقت نوع عام کی تفصیل ہے، اس کی پھر تین انواع ہیں ،تقدیر عمری ،تقدیر حولی،تقدیر یو می۔