کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 269
اکتب‘‘ اس صورت میں معنی ہوگا کہ مخلوقات میں سے سب سے پہلے پہل مخلوق قلم ہے ۔ ’’ فمااصاب الانسان لم یکن لیخطئہ‘‘یہ عبارت روای حدیث جنابِ عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ کا کلام ہے (حدیث کا حصہ نہیں) اس کا معنی یہ ہے کہ ا نسان کو نفع یا نقصان پہنچانے والی جو بھی چیز پہنچتی ہے وہ اس انسان کے مقدر میں لکھی ہوئی ہوتی ہے ،اس نے لازماً واقع ہوکررہنا ہے،اس کے برخلاف کوئی چیز واقع ہوہی نہیں سکتی۔ ’’ جفت الاقلام وطویت الصحف‘‘’’قلمیں خشک ہوچکی ہیں اور صحائف لپیٹے جاچکے ہیں‘‘ یہ عبارت اس بات سے کنایہ ہے کہ تقادیر لکھی جاچکی ہیں اور اس مسئلہ سے فراغت پائی جاچکی ہے۔ جامع ترمذی میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ مروی ہیں’’ رفعت الاقلام وجفت الصحف ‘‘یعنی قلمیں اٹھائی جاچکی ہیں اور صحائف خشک ہوچکے ہیں۔دونوں عبارتوں کا مطلب ایک ہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کیلئے صفتِ علم کے اثبات پر قرآنی دلائل اس سلسلہ میں شیخ نے پہلی آیت یہ ذکر کی ہے : { أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّٰه یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَا ئِ وَالْاَرْضِ إِنَّ ذٰ لِکَ فِیْ کِتَا بٍ إِنَّ ذِٰلکَ علَیَ اللّٰه یَسِیْرٌ } ( الحج :۷۰) ترجمہ:’’کیا آپ نے نہیں جانا کہ آسما ن وزمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے ۔یہ سب لکھی ہوئی کتاب میں محفوظ ہے ۔اللہ تعالیٰ پر تو یہ امر بالکل آسان ہے ‘‘ آیتِ کریمہ میں استفہام تقریری ہے،جس کا معنی یہ ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو اس بات کا یقینی علم حاصل ہے:آیت میں اس بات کابیان ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم عالم سفلی وعلوی کو محیط ہے،اور یہی مرتبہ علم ہے ،’’فی کتاب‘‘ یعنی لوحِ محفوظ میں مکتوب ہے۔میں مرتبہ کتابت کا بیان ہے۔