کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 244
[ان اللّٰه یدنی المؤمن فیضع علیہ کنفہ ویسترہ من الناس ویقررہ بذنوبہ ویقول لہ :أ تعرف ذنب کذ ا۔ أ تعرف ذنب کذ ا؟ أ تعرف ذنب کذا؟ حتی اذا قررہ بذنوبہ ورأی فی نفسہ أن قد ھلک ، قال :فانی قد سترتھا علیک فی الدنیا ، وأنا أغفرھا لک ا لیوم ثم یعطی کتاب حسنا تہ ] ترجمہ:[… اللہ تعالیٰ مؤمن کو اپنے نزدیک کرکے اس پر اپنا پردہ عزت ڈال کر اسے چھپائے گا اور اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا ،اس سے پوچھے گا کیا تجھے فلاں گناہ یاد ہے؟کیا تجھے فلاں گناہ یاد ہے؟کیا تجھے فلاںگناہ یاد ہے؟ اس طرح اللہ تعالیٰ اس سے تمام گناہوں کا اقرار کرائے گااور وہ شخص اپنے دل میں خیال کرے گاکہ اب میں ہلاک ہوگیا،اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے دنیا میں تیرے گناہ چھپارکھے تھے اور آج بھی تیرے گناہ معاف کرتا ہوں ،پھر اسے نیکیوں کی کتاب دے دی جائے گی] گناہوں کے اقرار کرانے کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یاد دلانے اور سوال کرنے پر بندہ اپنے گناہوں کا اقرار کرتا جائے گا۔ مؤمنین میں سے بعض ایسے ہوں گے جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے جیسا کہ مشہور حدیث ہے ، اس امت کے ستر ہزار افراد بغیر حساب وعذاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ مؤمنین کے حساب کی مختلف صورتین ہیں :(۱) حساب یسیر(آسان حساب) اس میں صرف بندے کے سامنے اس کے اعمال پیش کئے جائیں گے ۔ (۲) المناقشہ: حساب کی تفصیل سختی سے لینا ،سخت پوچھ گچھ کرنا،چنانچہ صحیحین میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی روایت ہے: [ ان رسو ل اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قال :لیس أحد یحا سب یوم القیا مۃ الاھلک ، فقلت: یا رسول اللّٰه ألیس قد قا ل اللّٰه تعالیٰ:{ فَأَمَّا مَنْ أُوْتِیَ کِتَابَہٗ بِیَمِیْنِہ