کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 243
’’ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَّوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا ‘‘ (آج تو تو آپ ہی اپنا خود حساب لینے کو کافی ہے) حسیب بمعنی حاسب ہے ،اور بو جہ تمییز کے منصوب ہے ۔ یہ عظیم عدل ہے کہ ہر انسان کو اسکے نفس کا محاسب بنادیا جائے تاکہ وہ خود اپنے اعمال دیکھ لے اور کسی عمل کا انکار نہ کرسکے ۔ آیتِ کریمہ سے شاہد یہ ہے کہ اس آیت میں اس بات کا اثبات ہے کہ قیامت کے دن ہر انسان کو اس کا صحیفہ عمل دیا جائے گا اور وہ بغوربغیر کسی واسطے کے اسے پڑھے گا اور اپنے اعمال سے آگاہ ہوگا ۔ (۴) ’’ویحاسب اللّٰه الخلائق ‘‘( اور اللہ تعالیٰ مخلوق کا حساب لے گا) اللہ تعالیٰ کا حساب لینا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو ان کے اعمال ،جنہیں بندے بھول چکے ہوں گے کی یاد دھانی کرائے گا اور پھر جزائے اعمال سے انہیں آگاہ کرے گا۔ دوسرے لفظوں میںاللہ تعالیٰ کا حساب لینا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بندوں کو ان کے محشر سے انصراف سے پہلے ان کے اعمال خواہ خیر ہو یا شر، سے آگاہ کرنا۔ اس کے بعد شیخ رحمہ اللہ نے حساب کو دوقسموں میں تقسیم کیا ہے۔ ا لنوع الاول :مؤمن کا حساب اس کے متعلق شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا: کہ اللہ تعالیٰ علیحدگی میںمؤمن بندے سے اس کے گناہوں کا اعتراف کرائے گا،جیسا کہ کتاب اللہ وسنت میںوارد ہے،اللہ تعالیٰ کافرمان: { فَأَمَّا مَنْ أُوْتِیَ کِتَابَہٗ بِیَمِیْنِہٖ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا ۔وَیَنْقَلِبُ اِلٰی أَھْلِہٖ مَسْرُوْرًا } (الانشقاق:۷تا۹) ترجمہ:’’تو(اس وقت) جس شخص کے داہنے ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائے گا۔ اس کا حساب تو بڑی آسانی سے لیا جائے گا۔ اور وہ اپنے اہل کی طرف ہنسی خوشی لوٹ آئے گا‘‘ صحیحین میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: