کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 242
شیخ رحمہ اللہ نے اس آیت سے بھی استدلال کیا ہے: { وَکُلَّ اِنْسَانٍ أَلْزَمْنٰہُ طٰئِرَہٗ فِی عُنُقِہٖ وَنُخْرِجُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کِتٰبًا یَّلْقٰہُ مَنْشُوْرًا۔اِقْرَأْ کِتٰبَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَّوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا } (الاسراء : ۱۳،۱۴) ترجمہ:’’ ہم نے ہر انسان کی برائی بھلائی کو اس کے گلے میں لگادیا ہے اور بروزِ قیامت ہم اس کے سامنے اس کا نامہ اعمال نکالیں گے جسے وہ ا پنے اوپر کھلا ہوا پالے گا۔ لے !خود ہی اپنی کتاب آپ پڑھ لے ،آج تو تو آپ ہی اپنا خود حساب لینے کو کافی ہے‘‘ یہاں طائر سے مرادانسان کے اعمالِ خیر وشر ہیں جو اس سے صادر ہوتے ہیں۔ یعنی ہر انسان کا نامۂ اعمال اس کے ساتھ چپکا دیا جائے گا ،اور لازماً اسے جزا دی جائے گی ، چھٹکارہ کی کوئی صورت نہ ہوگی ،یہ نامۂ اعمال اس طرح اس کے ساتھ چپکا ہو ا ہوگا جس طرح ہار گردن کے ساتھ چپکا ہوتا ہے { وَنُخْرِجُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کِتٰبًا یَّلْقٰہُ مَنْشُوْرًا } ترجمہ:’’اور بروزِ قیامت ہم اس کے سامنے اس کا نامہ اعمال نکالیں گے جسے وہ ا پنے اوپر کھلا ہوا پالے گا۔‘‘ یعنی قیامت کے دن انسان کے تمام اعمال کو ایک کتاب میں جمع کردیا جائے گا ،اگر نیک بخت ہوگا تو کتاب اس کے دائیں ہاتھ میں دے دی جائے گی اور بدبخت ہوگا تو کتاب بائیں ہاتھ میں دے دی جائے گی۔ ’’ یَّلْقٰہُ مَنْشُوْرًا‘‘ منشور بمعنی مفتوح ہے یعنی وہ کتاب کھلی ہوگی تاکہ وہ خودبھی اور دوسرے بھی اس کو پڑھ لیں ۔ حسنات کی صورت میں جلد خوشخبری دینے کیلئے ہے اور سیئات کی صورت میں توبیخاًہے۔ ’’اِقْرَأْ کِتٰبَکَ ‘‘ (اپنا نامہ اعمال پڑھو) یہ حکم اللہ کی طرف سے ہوگا، کہا جاتا ہے کہ اس دن پڑھنا جاننے والے اور نہ جاننے والے سب اپنی اپنی کتاب کو پڑھیں گے۔