کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 240
موازین ،میزان کی جمع ہے ،یہاں میزان سے مراد وہ ترازو ہے جس سے نیکیاں اور بدیاں تولی جائیں گی،یہ میزان حقیقی ہے ،اس کا کانٹا اور دوپلڑے ہوںگے ۔میزان بھی امورِ آخرت سے تعلق رکھتا ہے، حدیث میں جس طرح اس کا ذکر آیا ہے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں ،اس کی کیفیت وغیرہ سے بحث نہیں کرتے ۔ وزن ِ اعمال میں حکمت یہ ہے کہ مقادیرِ اعمال ظاہر کی جائیں تاکہ ان کے مطابق جزا مرتب ہوسکے۔ آیت ِکریمہ :’’ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَأُولٰئِکَ ھُمُ المُفْلِحُوْنَ‘‘ کا مطلب ہے کہ جن کی نیکیاں ان کی بدیوں پر بھاری ہوگئیں وہ آگ سے نجات پاجائیں گے اور دخولِ جنت کے مستحق ہوں گے۔ آیت کریمہ: ’’وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَأُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْا أَنْفُسَھُمْ فِی جَھَنَّمَ خَالِدُوْنَ ‘‘ کا مطلب ہے کہ جن لوگوں کی بدیاں نیکیوں پر بھاری ہوجائیں گی وہ ناکام ونامراد ہوں گے اورجہنم میں داخل ہوں گے اور ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ۔ آیت ِکریمہ میں شاہد یہ ہے کہ اس میں موازین کا ا ثبات ہے ،اور یہ وزنِ اعمال روزِ قیامت ہوگا ،وزن اور موازین کا ذکر قرآن مجید میں متعدد مقام پر ہواہے، نصوص سے پتہ چلتا ہے کہ وزن، عمل ،عامل اورصحائف سب کا ہوگا ،ان نصوص میں کوئی منافات نہیں ہے، وزن تو سب کا ہوگا لیکن بوجھل اور ہلکا پن ہونے میں اعتبار صرف نفسِ عمل کا ہوگا ،ذات ِ عامل اور صحائف کا اعتبار نہیں ہوگا۔ معتزلہ ان نصوص کی تاویل کرتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ وزن ومیزان سے مراد عدل ہے ،ان کی یہ تاویل فاسد ہے اور نصوص ،اجماعِ سلفِ صالحین وأئمہ امت کے خلاف ہے ۔ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ معتزلہ نے وزن وموازین وغیرہ کا عقلاً محال وناممکن