کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 206
میں انتہائی متشدد ہیں، یہاں تک کہ ان کا کہنا ہے کہ اگر مرتکبِ کبیرہ بغیر توبہ کیئے مرجائے تو ہمیشہ کا جہنمی ہے ،کیونکہ مرتکبِ کبیرہ ان کے نزدیک ایمان سے محروم ہوجاتا ہے۔ جبکہ ان دونوں فرقوں کے مقابلے میں اہل السنۃ والجماعۃ، وسطیت اور اعتدال پر قائم ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ مرتکبِ کبیرہ گناہگار ہے، وعیدوں کا نشانہ ہے ،ناقص الایمان ہے ،اور اس پر فاسق ہونے کا حکم لگایا جائے گا،لیکن وہ وایمان سے خارج نہیں،اور اگر جہنم میں داخل ہوا تو ہمیشہ جہنم میں نہ رہیگا ،بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے تحت ہوگا اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اسے معاف فرمادے اور اگر چاہے تو اس کی معصیت کے بقدر اسے عذاب میں مبتلا کردے پھر اسے جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ مرجئہ نے نصوص وعد کو پکڑا ہوا ہے،اور وعیدیہ نے نصوصِ وعید کو پکڑا ہوا ہے ،جبکہ اہل السنۃ والجماعۃ دونوں نصوص کو قبول کرتے ہوئے، تطبیق وجمع کی راہ اختیار کیئے ہوئے ہیں۔ رابعاً: ’’واھل السنۃ والجماعۃ وسط فی باب اسما ء الایمان والد ین بین الحرویۃ وا لمعتزلۃ وبین ا لمرجئۃ وا لجہمیۃ ‘‘یعنی( انسانوں پر کفر،اسلام اور فسق کا حکم لگانے اور نافرمانوں کی دنیا وآخرت میںجزاء وسزا کے متعلق اہل السنۃ والجماعۃ ،حروریۃ ومعتزلہ اور مرجئہ وجہمیۃ کے مقابلہ میں وسطیت واعتدال پر قائم ہیں۔ الحروریۃ: حروریہ سے مراد خوارج ہیں، کیونکہ یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ پر خروج کرکے قریہ’’ حروری‘‘ جو کہ سرزمینِ عراق میں واقع ہے ،کی طرف چلے گئے تھے اور اس کو اپنا مسکن بنالیا تھا ،اس لیئے ان کی نسبت اس بستی کی طرف کرتے ہوئے انہیں حروریہ کہا جاتا ہے۔ المعتزلۃ: معتزلہ،واصل بن عطاء کے متبعین کو کہا جاتا ہے،واصل بن عطاء جنابِ حسن بصری رحمہ اللہ کی مجلس میں بیٹھا کرتا تھا، مرتکبِ کبیرہ کے حکم کے مسئلہ میں حسن بصری رحمہ اللہ سے اختلاف کرکے علیحدگی اختیار کرلی،اس مسئلہ میں جو اس کے ہمنوا تھے وہ بھی اس کے ساتھ چلے