کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 205
{ وَاللّٰه خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ } (الصافات: ۹۶) اس آیت کریمہ میں عمل کے صدور کی نسبت بندے کی طرف کی گئی ہے لیکن اسے اللہ تعالیٰ کی خلق اور تقدیر قراردیاگیاہے۔ نیز فرمایا:{ وَمَا تَشَائُ وْنَ اِلاَّ اَنْ یَّشَائَ اللّٰه رَبُّ الْعَالَمِیْنَ } (التکویر:۲۹) ترجمہ:’’اور تم بغیر پروردگارِ عالم کے چاہے کچھ بھی نہیں چاہ سکتے‘‘ اس آیتِ کریمہ میں بندوں کیلئے مشیئت کو ثابت کیا گیاہے ،لیکن یہ مشیئت اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے بعد ہے ،اس مسئلہ کی مزید وضاحت بحثِ تقدیر میں آئیگی ،ان شاء اللہ ثالثاً: ’’ وأھل السنۃ والجماعۃ وسط (فی باب وعید اللّٰه )بین المرجیئۃ والوعید یۃ من ا لقدریۃ وغیرھم‘‘ یعنی(اھل السنۃ والجماعۃ اللہ تعالیٰ کی وعیدوں کے باب میں مرجئہ اور وعیدیہ وغیرہ کے درمیان وسطیت واعتدال پرقائم ہیں) وعید: کا معنی ڈرانا اوردھمکانا ہے، البتہ یہاں سے مراد وہ قرآنی نصوص ہیں جس میں نافرمانوں اور گناہ گاروں کو عذاب وسزاسے ڈرایا اور دھمکایا گیاہے۔ مرجئہ کی نسبت ارجاء کی طرف ہے ،ارجاء کا معنی تاخیر ہے،مرجئہ کو مرجئہ اس لیئے کہاجاتا ہے کہ یہ اعمال کو ایمان سے خارج سمجھتے ہیں،ان کا زعمِ باطل ہے کہ مرتکبِ کبیرہ فاسق نہیں ہے ،ان کا کہنا ہے کہ ایمان کی موجودگی میں گناہ نقصان نہیں دیتا،جس طرح کہ کفر کی موجودگی میں نیکی نفع نہیں دیتی ،ان کے نزدیک مرتکبِ کبیرہ کامل الایمان ہے،لہذا یہ کسی قسم کی وعید کا نشا نہ نہیں ہے، یہ لوگ عاصی پر حکم لگانے میں متساہل ہیں اور اس تساہل میں افراط کا شکارہوکر اس زعم میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ معاصی ایمان میں کسی قسم کا نقص پیدا نہیں کرتے ،اور نہ ہی مرتکبِ کبیرہ پر فاسق ہونے کا حکم لگایاجاسکتا ہے ۔ مرجئہ کے مقابلے میں الوعیدیۃ ہیں، یہ وعیدوں کو نافرمان پر نافذ کرتے ہیں، اور اس سلسلہ