کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 204
تشبیہ وتمثیل لازم نہ آئے (جبکہ جہمیہ اور مشبہ کا منہج سراسر الحاد پر قائم ہے ،جہمیہ تنزیہ کے باب میں اس قدر بہک گئے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا انکار کربیٹھے ۔اس کے برعکس مشبہ اثبات صفات میں اس قدر غلو کاشکار ہوگئے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو مخلوقات کی صفات سے تشبیہ دے بیٹھے۔ (والعیاذباللّٰه ) ثانیاً: ’’وھم وسط فی باب أ فعال اللّٰه بین ا لجبریۃ وا لقدریۃ‘‘ یعنی( اہل السنۃ اللہ تعالیٰ کے افعال میں جبریہ اور قدریہ وغیرھم کے مقابلہ میں اعتدال پر قائم ہیں) فرقۂ جبریہ کی نسبت جبر (زبردستی کرنا) کی طرف ہے،کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ بندہ اپنے فعل پر مجبور محض ہے،چنانچہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کیلئے افعال کے اثبات میں غلوکاشکار ہوگئے ،یہاں تک کہ افعالِ عباد کی نفی کردی ،ان کا زعمِ ِباطل ہے کہ بندے تو کچھ بھی نہیں کرتے فاعل اصلی تو اللہ تعالیٰ ہے ،بندہ تو اپنے فعل میں مجبور ہے،بندے کے افعال وحرکات سب کے سب اضطراری ہیں،جس طرح مرتعش (رعشہ کے مریض) کی حرکات اضطراری ہوتی ہیں،جہاں تک افعال کی نسبت بندے کی طرف کرنے کی بات ہے تو یہ نسبت مجازی ہے۔ فرقۂ قدریہ کی نسبت قدر (تقدیر)کی طرف ہے ،یہ جبریہ کے برعکس افعالِ عباد کے اثبات میں غلو کا شکار ہوگئے ،ان کا کہنا ہے کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے ، اللہ تعالیٰ کی ارادے ومشیئت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں،اور یہ کہ افعالِ عباد اللہ تعالیٰ کے ارادے ومشیئت کے تحت نہیں ہیں،چنانچہ ان کا زعمِ باطل ہے کہ افعالِ عباد اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور ارادے سے نہیں ہیں، بلکہ بندے خود ہی مستقلاً اپنے افعال کے فاعل وخالق ہیں۔ ان دونوں فرقوں کے مقابلہ میں اہل السنۃ وسطیت اور اعتدال پر قائم ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بندے کو اپنے افعال کے صدور میں ایک حد تک مشیئت واختیارحاصل ہے ،اور اس کی یہ مشیئت واختیار اللہ تعالیٰ کے ارادہ ،مشیئت اور تقدیر کے تابع ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: