کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 193
’’اعوذ بک من شر کل دابۃ انت آخذ بناصیتھا‘‘ یعنی: ائے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں ہر دا بۃ کے شر سے کہ تو ہی اس کی پیشانی کو پکڑے ہوئے ہے۔ ’’دابۃ‘‘ زمین پر رینگنے اور چلنے والے ہر جانور اور کیڑے مکوڑے کو کہا جاتا ہے۔پیشانی سے پکڑنے کا مطلب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے غلبہ اور بادشاہت کے تحت ہیں۔(چونکہ وہ تیرے غلبہ اور بادشاہت کے تحت ہیں لہذا مجھ سے ان کا شر دور فرمادے) ’’الأول،الآخر،الظاہراور الباطن‘‘ یہ چاروں تعالیٰ کے نام ہیں ، پہلے دونوں نام ’’الأول، الآخر‘‘اللہ تعالیٰ کی ازلیت وابدیت کیلئے ہیں اور دوسرے دونوں نام ’’الظاہر، الباطن‘‘ اللہ تعالیٰ کے علو وقرب کیلئے ہیں۔ آخری دونوں نام ’’الظاہر،الباطن‘‘ ہی حدیث میں محلِ شاہد ہیں ،کیونکہ ان دونوں ناموں میں اللہ تعالیٰ کے علو اور قرب کا بیان ہے، ان دونوں ناموں میں کوئی منافاۃ اور تناقض نہیں ہے، اللہ تعالیٰ اپنے علو کے باوجود قریب بھی ہے، اور قریب ہونے کے باوجود بلند بھی ہے۔ ’’اقض عنی الدین‘‘ یعنی ’’ میرا قرض اد اکردے‘‘ ’’الدَین‘‘ سے مراد حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں ہیں۔ اس جملہ میں اپنی ذات سے ہر قسم کے ’’ حول و قوۃ ‘‘،یعنی تصرف کی نفی کرکے اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے۔ ’’واغننی من الفقر‘‘یعنی’’ ائے اللہ ! مجھے فقر سے بے پروا کردے‘‘ ’’الفقر‘‘ حاجت کو کہتے ہیں، اور ’’الفقیر‘‘ اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ،یا اتنا ہو جو ضروریات کیلئے ناکافی ہو۔ یہ حدیث مشاکل ومصا ئب کے حل اورقبولیتِ دعا کیلئے اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے توسل کی مشروعیت پر دلالت کررہی ہے۔