کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 16
شہادت کافی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں… اور اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام افعال سے باخبر ہے ،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کے دشمنوں کے خلاف بھرپور مددکرنے والا ہے … اور یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچا رسول ہونے کی قطعی دلیل ہے ،کیونکہ اگر آپ ( نعوذباللہ) مفتری ہوتے تو اللہ تعالیٰ آپ کو بہت جلد سزا دے چکا ہوتا ،کیونکہ اس کا ارشاد ہے : { وَلَوْتَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَ قَاوِیْلِ۔ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ ۔ثُمَّ لَقَطَعْنَامِنْہُ الْوَتِیْنَ} ( الحاقۃ :۴۴،۴۵) ترجمہ:’’ اور اگر یہ ہم پر کوئی بھی بات بنا لیتا تو البتہ ہم اس کا داہناںپکڑ لیتے ،پھر اس کی شہ رگ کو کاٹ دیتے‘‘ ’’وأشھدأن لاالہ الا اللّٰه وحدہ لاشریک لہ اقرارا بہ وتوحیدا ۔ ‘‘ یعنی میں اقرار واعتراف کرتا ہوں کہ معبودِ حق صرف اللہ تعالیٰ ہے ،اس کے سوا کوئی معبودِ حق نہیں ہے …’’وحدہ لاشریک لہ‘‘ یہ کلمے سابقہ جملے ’’أشھد ان لاالٰہ الا اللّٰه ‘‘ میں جو نفی واثبات کا معنی پایا جاتا ہے کی تاکید ہیں ،چنانچہ ’’وحدہ‘‘ اثبات یعنی ’’ الا اللہ ‘‘ کی تاکید اور ’’لاشریک لہ‘‘ نفی یعنی ’’لاالٰہ‘‘ کی تاکید ہے ۔ ’’ ا قرارا بہ وتوحید ا‘‘ اقرار وتوحید دونوں مصدر ہیں اور سابقہ جملہ کے معنی کو مزید مؤکد کررہے ہیں۔’’اقرار‘‘ سے مراد زبان سے اقرار کرنا ،اور’’ توحید‘‘سے مراد ہر عبادت میں خواہ وہ قولی ہو یا فعلی یا اعتقادی ،میں مکمل اخلاص ثابت وقائم رکھنا۔ ’’ وأ شھد ا ن محمد ا عبدہ ورسولہ‘‘ یعنی میں زبان سے اقرار،اور دل سے یہ اعتقاد رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دینا،اللہ تعالیٰ کی توحید کی گواہی کے ساتھ مقرون اور لازم وملزوم ہے…یعنی دونوں گواھیاں ضروری ہیں کسی ایک پر اکتفاء کرلینا ہرگز کافی نہیں ہوگا۔