کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 152
{ وَاِذْ نَادٰی رَبُّکَ مُوْسیٰ اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ }(الشعراء: ۱۰) ترجمہ:’’ اور جب آ پ کے رب نے موسیٰ کو آواز دی کہ ظالم قوم کے پاس جا‘‘ …شرح… ’’وَاِذْ نَادٰی رَبَّکَ مُوْسیٰ ‘‘یعنی اس واقعہ کو تلاوت کریںیا ذکر کریں۔ ’’اِذْ نَادٰی رَبَّکَ مُوْسیٰ ‘‘‘نداء بمعنی پکار کے ہے ’’ان ائت ‘‘ کلمہ ’’ أن‘‘کا یہاں پر مفسرہ اور مصدریہ ہونا دونوںدرست ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو نداء فرماکر ظالم قوم کی طرف جانے کا حکم دیا،یہ قومِ فرعون ہے۔انہیں ظالم اس لئے کہا گیا :(۱) انہوں نے کفر اختیار کرکے اپنی جانوں پر ظلم کیا (۲) مختلف نافرمانیوں ،جن میں بنی اسرائیل کو غلام بنانا اور ان کے بچوں کو ذبح کرنا شامل ہے کا ارتکاب کرکے دوسروں پر ظلم کیا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کیلئے کلام کا اثبات ہے، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ا پنے بندوں میں سے جسے چاہے نداء فرماتا ہے ،اور جس سے چاہے کلام فرماتاہے۔ { وَنَادٰھُمَا رَبُّھُمَا أَلَمْ اَنْھَکُمَا عَنْ تِلْکُمَا الشَّجَرَۃِ } ترجمہ’’ اور ان کے رب نے ان کو پکارا کیا میں تم دونوں کو اس درخت سے ممانعت نہ کرچکا تھا‘‘ (الاعراف:۲۲) …شرح… ’’وَنَادٰھُمَا رَبُّھُمَا أَلَمْ اَنْھَکُمَا عَنْ تِلْکُمَا الشَّجَرَۃِ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم وحواء علیھما السلام کو یہ کہتے ہو ئے آواز دی ’’ أَلَمْ اَنْھَکُمَا عَنْ تِلْکُمَا الشَّجَرَۃِ‘‘یعنی کیا