کتاب: عقیدہ فرقہ ناجیہ - صفحہ 151
’’ وَلَمَّا جَائَ مُوْسیٰ لِمِیْقَاتِنَا‘‘یعنی موسیٰ علیہ السلام اس وقت فی ا لواقع آگئے جس وقت آنے کا اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ لیا تھا۔ ’’وَکَلَّمَہٗ رَبُّہٗ‘‘یعنی اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو بلاواسطہ اپنی کلام سنائی۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ کیلئے صفتِ کلام کا اثبات ہے اور یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے کلام فرماتا ہے اور یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے بلاواسطہ کلام فرمایا۔ { وَنَا دَ یْنَا ہُ مِنْ جَا نِبِ ا لطُّوْرِ الْاَیْمَنِ۔ وَقَرَّبْنَاہُ نَجِیًّا}(مریم:۵۲) ترجمہ:’’ ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے آواز دی اور راز گوئی کرتے ہوئے اسے قریب کرلیا ‘‘ …شرح… ’’وَنَا دَ یْنَا ہُ ‘‘’’نداء‘‘ عربی لغت میں ا ونچی اور بلند آواز کو کہتے ہیں ۔ یہاں اللہ تعالیٰ کی موسیٰ علیہ السلام سے نداء مراد ہے ۔’’مِنْ جَا نِبِ الطُّوْرِ‘‘’’‘الطُّوْر‘‘ مصر اور مدین کے درمیان ایک پہاڑ ہے۔ ’’ا لأیمن‘‘یعنی موسیٰ علیہ السلام کے دائیں جانب(سے نداء آئی)۔یہ اس وقت کی بات ہے جب موسیٰ علیہ السلام آگ کا انگارہ دیکھ کر آگ لینے کی نیت سے گئے تھے ،یہاں دائیں جانب سے مراد پہاڑ کی دا ئیںجانب نہیں کیوں کہ پہاڑ کی دا ئیں یا بائیں جانب نہیں ہوتی۔ ’’وقربناہ ‘‘ یعنی ہم نے اسے(موسیٰ ) کو قریب کیا اور اس سے سرگوشی کے انداز میں کلام کی۔مناجات، منادات کی ضد ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کیلئے کلام کا اثبات ہے، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اونچی آواز اور آہستہ دونوں طرح کلام فرماتا ہے، کیونکہ منادات باآواز بلند ہوتی ہے اور مناجات باآواز پست ۔